تحریک انصاف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں تجربہ کار اراکین کو لانے کی خواہاں

سرکاری اداروں کی آڈٹ رپورٹس کے ذریعے اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر حملہ کرنے کے اقدام کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے حکمران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اراکین کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ تجربہ کار پارٹی کارکن اپوزیشن کا مؤثر انداز میں مقابلہ کرسکیں۔
پی ٹی آئی کے ایک ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پی ٹی آئی کے ان ممبروں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے کمیٹی کے اجلاسوں میں سرکاری اداروں کے بارے میں کمزور آڈٹ پیرا کو چیلنج نہیں کیا۔
ذرائع نے وزیر اعظم کے حوالے سے کہا ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں اپوزیشن جماعتوں کی نمائندگی بڑے سیاسی رہنما کررہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے بہت سے اراکین ناتجربہ کار ہیں اور اس طرح وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اجلاسوں میں حزب اختلاف کے رہنماؤں کا بھرپور مقابلہ نہیں کرسکتے۔
وزیر اعظم کا مؤقف تھا کہ حزب اختلاف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کے دفاتر کو آڈٹ رپورٹس میں حکومتی امور کی مایوس کن تصویر پیش کرنے کے لیے استعمال کررہی ہے۔اس وقت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین پاکستان مسلم لیگ نواز (مسلم لیگ ن) سے ہیں اور موجودہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا تقرر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران کیا گیا تھا۔
عمران خان نے کہا کہ محکمہ آڈٹ نے ان اداروں کی بے قاعدگیوں کو نظرانداز کیا جن سے آڈیٹرز کو ‘راضی’ کیا گیا ، لیکن ان لوگوں کے خلاف آڈٹ پیرا بنایا گیا جنہوں نے ‘سمجھوتہ نہیں کیا’۔قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کسی کو بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا رکن نامزد کرنے یا تبدیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
اس وقت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے 30 اراکین ہیں جن میں تحریک انصاف کے 11 افراد شامل ہیں، پی ٹی آئی کے اراکین میں رکن قومی اسمبلی نور عالم خان، عامر محمود کیانی، ثنا اللہ خان مستی خیل، نصراللہ خان دریشک، منزہ حسن، خواجہ شیراز محمود، محمد ابراہیم خان راجہ ریاض، عامر ڈوگر، شبلی فراز اور ریاض فتیانہ شامل ہیں۔
دوسری طرف حزب اختلاف کے پاس شہباز شریف، راجہ پرویز اشرف، مشاہد حسین سید، خواجہ آصف، ایاز صادق، نوید قمر، شیری رحمٰن، رانا تنویر حسین (چیئرمین)، حنا ربانی کھر اور سینیٹر طلحہ محمود کی شکل میں بڑے سیاسی رہنما پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اراکین ہیں۔
قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے چیف وپ اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے رکن عامر ڈوگر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وزیر اعظم نے ان سے اور وزیر دفاع پرویز خٹک سے کہا ہے کہ وہ جلد ہی اسپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات کریں اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی تشکیل پر نظرثانی کریں تاکہ اس میں شامل جونیئر اراکین کی جگہ پی ٹی آئی کے تجربہ کار اراکین کو شامل کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ عام طور پر ایک حکمران جماعت کے سینئر رہنما کابینہ کا رکن بننے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کا رکن بننے میں کم سے کم دلچسپی رکھتے ہیں، دوسری طرف حزب اختلاف اپنے سینئر رہنماؤں کو ہمیشہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور قائمہ کمیٹیوں میں بھیجتی ہے۔عامر ڈوگر نے کہا ہم پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں کو لانے کی کوشش کر رہے ہیں جو حزب اختلاف اور بے بنیاد آڈٹ پاروں کا سختی سے مقابلہ کرنے کے لیے سخت محنت کریں گے۔
آڈٹ رپورٹس پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تناؤ اس وقت شروع ہوا جب گزشتہ سال حزب اختلاف کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پی ٹی آئی ممبر راجہ ریاض کے اصرار پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کو طلب کیا تھا جس میں انہوں نے سرکاری محکموں میں بدعنوانی کا حوالہ دے کر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جیسا کہ آڈٹ رپورٹ 20-2019 میں ذکر کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم حزب اختلاف کی پریس کانفرنس سے ناراض تھے اور ان کا خیال تھا کہ معمولی انور سے متعلق آڈٹ پیرا کو بدعنوانی کی نمائش نہیں کہا جا سکتا۔پریس کانفرنس کے بعد وزارت خزانہ نے ایک وضاحت جاری کی اور کہا کہ آڈٹ پیرا کو بدعنوانی کی نمائش قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔گزشتہ سال حکومت نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا بیرونی آڈٹ کروانے کی بھی کوشش کی تھی لیکن بعد میں اے جی پی آفس کی آزادی پر ہونے والی خلاف ورزی سے بچنے کے لیے اپنا خیال بدل لیا۔ادارہ جاتی اصلاحات سے متعلق وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ حکومت نے مجاز افسران، آڈیٹروں اور یہاں تک کہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو شامل کر کے اے جی پی آفس کو از سر نو تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو یقین ہے کہ اے جی پی آفس حکومت کے کاموں اور فیصلوں میں رکاوٹ ڈالنے والے بے بنیاد آڈٹ پیرا کے ذریعے ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کررہا ہے، مثال کے طور پر بجلی کا شعبہ حکومت کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے اور ہم اس میں بہتری لانا چاہتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ایک آڈٹ پیرا یہ بھی پوچھتا ہے کہ بجلی ڈویژن کے تحت کام کرنے والی ایک چپڑاسی کی کسی ایجنسی میں تقرری کیوں کی گئی جس کی وجہ سے ایجنسی کے لیے پریشانی پیدا ہوتی ہے۔وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ وزیر اعظم اے جی پی آفس کو ڈیجیٹل خطوط پر استوار کر کے اس کی بحالی چاہتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button