کنفیوژن در کنفیوژن : عمران خان مذاکرات چاہتے ہیں یا احتجاج ؟

پاک بھارت جنگ کے بعد شہباز شریف کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی تذبذب کا شکار دکھائی دیتی ہے جہاں ایک طرف بانی پی ٹی آئی صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے بہانے ترلہ پروگرام جاری رکھتے نظر آتے ہیں وہیں دوسری جانب یوتھیوں کو مطمئن رکھنے کیلئے احتجاجی تحریک شروع کرنے کے اعلانات کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بانی پی ٹی آئی کو خود سمجھ نہیں آ رہی کہ انھوں نے مذاکرات کرنے ہیں یا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تحریک چلانی ہے۔ پی ٹی آئی قیادت کے اسی تذبذب کی وجہ سے تحریک انصاف کا کارکنان بھی شکوک و شبہات کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی ائی ایک طرف تو صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور دوسری طرف احتجاجی تحریک کی تیاریوں کی بھی بات کر رہے ہیں۔اس صورتحال میں پی ٹی آئی اور عمران خان کا مستقبل کیا ہوگا؟

سینیئر تجزیہ کار ابصار عالم کے مطابق عمران خان اور ان کی پارٹی پی ٹی آئی کافی عرصے سے فلپ فلاپ کر رہی ہے، کسی کو سمجھ نہیں آ رہا کہ عمران خان کیا چاہتے ہیں؟ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان اپنی شرائط پر مذاکرات آگے بڑھانا چاہتے ہیں، عمران خان اور ان کی پارٹی نے ماحول اتنا خراب کر دیا ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان پر اعتماد ہی نہیں ہے اسٹیبلشمنٹ اگر عمران خان کو کوئی ریلیف دینا بھی چاہتی ہے تو عمران خان حکومت اور سسٹم کے خلاف یلغار کی بات کر دیتے ہیں۔ جس سے سارا معاملہ بگڑ جاتا ہے۔ ابصار عالم کا مزید کہنا تھا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ یہ چاہتی ہے کہ جس طرح معاشی حالات کو بہتر کیا گیا ہے اور سیاسی امن ہوا ہے اسے برقرار رکھا جائے لیکن عمران خان اور ان کی جماعت اس سسٹم کے ہی خلاف ہیں اس لیے نہیں لگتا کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی ڈیل ہوگی کیونکہ عمران خان کی پارٹی کے اپنے ہی بعض لوگ ڈیل کے خلاف ہیں جبکہ بعض لوگ ڈیل کرنا چاہتے ہیں، عمران خان اور ان کی جماعت میں تسلسل نہیں ہے تو لگتا یہی ہے کہ یہ مذاکرات کی باتیں بس باتیں اور خبریں ہی رہ جائیں گی اور اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔

سینیئر تجزیہ کار انصار عباسی کے مطابق عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جو بھی سیاسی فیصلہ کرتے ہیں وہ ان کے خلاف جاتا ہے، پہلے انہوں نے قومی اسمبلی سے استعفے دیے، پھر انہوں نے پنجاب اور خیبر کو پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کیں پھر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت جارحانہ رویہ اپنایا ان پر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کیا۔ تاہم وقت کے ساتھ یہ سب فیصلے غلط ثابت ہوئے انصار عباسی کے مطابق اس وقت بھی عمران خان کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈائریکٹ مذاکرات کیے جائیں لیکن اب اسٹیبلشمنٹ یہ نہیں کرے گی کیوں اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے کہ حکومت سے مذاکرات کیے جائیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ حکومت جو بھی بات کرے گی اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی سے ہی کرے گی۔انصار عباسی کا مزید کہنا ہے کہ پی ٹی آئی صرف شرائط رکھ کر مذاکرات کرتی ہے لیکن اس طرح مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے، اگر عمران خان نے جیل سے رہائی حاصل کرنی ہے تو انہیں سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرنے ہوں گے، اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بھی عمران خان ایک دن مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو اگلے ہی روز آرمی چیف کے خلاف بیان دے دیتے ہیں، انصار عباسی کے مطابق عمران خان کی اپنی پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے اس لئےعمران خان کے سیاسی فیصلوں کی وجہ سے نہ صرف خود عمران خان بلکہ پی ٹی آئی  کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔

عمران کی جیل سے رہائی کی ایک اور کوشش ناکامی کا شکار ہو گئی

تاہم بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان کے حوالے سے ابھی تک کچھ واضح نہیں ہو رہا کہ وہ کیا چاہتے ہیں علی امین گنڈا پور جو بھی بات کر رہے ہیں اس کا کوئی مقصد یا فائدہ نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے عمران خان جس دن چاہیں گے یا فیصلہ کریں گے اسی دن مذاکرات آگے بڑھیں گے تاہم مستقبل قریب میں مذاکرات ہوتے نظر نہیں آرہے۔انہوں نے کہا کہ ایک دن علیمہ خان کہتی ہیں کہ جو کچھ کرنا ہے بتا دیں ہم تیار ہیں لیکن اگلے ہی روز جیل کے اندر سے خبر آجاتی ہے کہ عمران خان نے کہا ہے کہ ہم قانون کی بالادستی پہ یقین کرتے ہیں اور کسی کے ساتھ بات نہیں کریں گے اور کچھ لو اور کچھ دو کا فارمولا نہیں چلے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے عمران خان اور پی ٹی آئی سے 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگنے کی باتیں کی جاتی ہیں تو دوسری طرف عمران خان کا بیان آجاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ 9 مئی کو کی جانے والی گرفتاریوں اور ظلم پر معافی مانگے تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے بیانات سے ممکن نہیں نظر آرہا کہ عمران خان کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے، ہر مرتبہ مذاکرات کی بات چلتی ہے تو آخر میں عمران خان کا بیان آ جاتا ہے کہ مذاکرات نہیں کرنے تو سارا معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔تجزیہ کاروں کے بقول اگر عمران خان بالکل سیریس ہوں اور یکسوئی کے ساتھ مذاکرات کریں تو ہو سکتا ہے کہ بات آگے بڑھے لیکن فی الوقت ایسا نظر نہیں آرہا کہ عمران خان مذاکرات یا بات چیت کے لیے تیار ہیں کیونکہ عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت کے مابین فیصلہ سازی اور اعتماد کا فقدان پیدا ہو چکا ہے اور پارٹی میں انتشار کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے۔

Back to top button