پی ٹی آئی نے اپنی حکومت میں بڑی گرم جوشی سے آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی : آئینی بینچ

سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلنز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پارلیمنٹ نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ کررہا ہے۔
دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ اگر بنیادی حقوق دستیاب نہ ہوں اور کسی ایکٹ کے ساتھ ملالیں تو کیا حقوق متاثر ہوں گے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے،کوئی بھی ترمیم ہوئی تو بنیادی حقوق ختم ہوجائیں گے، قانون کےمطابق جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سےہونا ضروری ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیاکہ آرمڈ فورسز کا کوئی فرد گھر بیٹھے جرم کرتا ہےتو کیا اس پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو گا؟
سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ پنجاب میں پتنگ اڑانا منع ہے،پنجاب میں کوئی پتنگ اڑائےتو وہ ملٹری کورٹ نہیں جائےگا،اس پر شہری قانون لگےگا،کیس میں 2 مسائل ہیں،ایک آرٹیکل 175 کا بھی مسئلہ ہے،جہاں تک بات بنیادی حقوق کی ہےتو دروازے بند نہیں ہوں گے۔
جسٹس نعیم اختر نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے کہاکہ ہلکے پھلکے انداز میں کہہ رہاہوں، برا نہ مانیےگا، آپ کی ایک سیاسی جماعت کےساتھ آج کل سیاسی وابستگی بھی ہے،آپ کی سیاسی جماعت کےدور میں آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم کی گئی تھی،آپ کی سیاسی جماعت نے پارلیمنٹ نے بڑی گرمجوشی سے آرمی ایکٹ سےمتعلق قانون سازی کی۔
جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ میں اس وقت پی ٹی آئی کا حصہ نہیں تھا،میں ہمیشہ اپوزیشن سائیڈ پر رہاہوں، 1975 میں ایف بی علی کیس میں پہلی دفعہ ٹو ون ڈی ون کاذکر ہوا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیاکہ اگر کسی فوجی جوان کا گھریلو مسئلہ ہے،اگر پہلی بیوی کی مرضی کےبغیر دوسری شادی کرلی جائے تو کیا دوسری شادی والے کو ملٹری کورٹ بھیجا جائےگا؟
جسٹس محمد علی مظہر نے سلمان اکرم راجہ سےسوال کیاکہ آرٹیکل ٹو ون ڈی ون کو ہر مرتبہ سپریم کورٹ کیوں دیکھے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ لیگل فریم ورک تبدیل ہوجائے تو جوڈیشل ریویو کیا جاسکتا ہے،آرٹیکل آٹھ 3 کا استثنیٰ ٹو ون ڈی ون کےلیے دستیاب نہیں۔
جسٹس نعیم اختر نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے کہاکہ ٹو ون ڈی ون کےلیے 1967 میں آرڈیننس لایاگیا جس کی ایک معیاد ہوتی ہے،کہیں ایسا تو نہیں آرڈیننس معیاد ختم ہونے پر متروک ہوگیا ہو؟ 1967 میں آرڈیننس کےذریعے آرمی ایکٹ میں ٹو ون ڈی ٹو آیا، 1973 کے آئین میں تو آرڈیننس کی معیاد 120 دن ہے جسے 120 دن مزید توسیع ملتی ہے،چیک کریں اس وقت کے آئین میں آرڈیننس کی معیاد کیا تھی؟ اس وقت کےحالات بھی مد نظر رکھیں،اس وقت ایک جنگ ہوئی جس کےبعد سیاستدانوں نے تحریک شروع کی،کہیں ایسا تو نہیں اس وقت اپنی رجیم برقرار رکھنے کےلیے آرڈیننس لایاگیا ہو؟اگر میں غلط ہوں تو اس کی تصحیح کریں،آپ اس نکتےکی طرف کیوں نہیں آرہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہا کہ اس وقت ون مین شو تھا،جسٹس نعیم اختر افغان نے کہاکہ آپ سوالات نوٹ کرلیں،وقفے کےبعد جواب دے دیں، سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ میں عدالتی وقفے کےدوران چیک کرلیتا ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر کےمطابق 5 رکنی بینچ نے سیکشن ٹو ون ڈی ختم کردیاتھا، جس کے عد جاسوس عناصر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکتا، آرمی میں سول ملازمین بھی ہوتےہیں اگر ان میں سےکوئی ملازمت کی آڑ میں دشمن ملک کےلیے جاسوسی کر تو ایسے جاسوس کا ٹرائل کہاں ہوگا۔
سلمان اکرم راجہ کا موقف تھاکہ آرمی میں موجود سول ملازمین آرمی ایکٹ کے تابع ہوتےہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تابع ہون پر نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا،سیکشن 2 ون ڈی کی عدم موجودگی میں ٹرائل کہاں ہو گا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیاکہ کیا آرمی ایکٹ کے تابع سول ملازم کے خلاف جاسوسی پر تادیبی کارروائی الگ اور ملٹری ٹرائل الگ ہو گا،جس پر سلمان اکرم راجہ کا موقف تھاکہ ایسا نہیں کہ 2 ون ڈی کےبغیر ریاست کا کاروبار نہیں چل سکتا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ اگر کوئی سویلین مڈل مین خفیہ راز دشمن کےحوالے کرے تو ٹرائل کہاں ہو گا؟۔
سلمان اکرم راجہ کا موقف تھاکہ اس کا ٹرائل اسپیشل انڈر آفیشیل سیکرٹ ایکٹ کےتحت ہوگا،جس میں ٹرائل کا مکمل طریقہ کار موجود ہے۔
سلمان اکرم راجہ کا موقف تھاکہ وہ اصول اور قانون کے خلاف اپنی مرضی سے توڑ موڑ کر دلائل نہیں دیں گے، کلبھوش کا کیس آپ کے سامنے ہے، دنیا میں ایسا نہیں ہوتا کہ آئین میں بنیادی حقوق دے کر انگلی کے ایک اشارے سے چھین لیے جائیں۔