آرمی ایکٹ میں اگر سویلینز کو لانا ہوتا تو اس میں الگ سے لکھا جاتا : جج آئینی بینچ

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سویلین کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ میں اگر سویلینز کو لانا ہوتا تو اس میں الگ سے لکھا جاتا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنےجواب الجواب میں دلائل پیش کیے۔

دوران سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایاکہ پک اینڈ چوز کس بنیاد پر کیاگیا؟ اس پر خواجہ حارث نے وضاحت دی کہ معاملہ پک اینڈ چوز کا نہیں بلکہ جرم کی نوعیت کےمطابق کیس انسداد دہشت گردی عدالت یا فوجی عدالت میں بھجوایا جاتا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیےکہ کیا سویلینز اس کے زمرے میں آتے ہیں،یہاں پر بات صرف فورسز کے ممبر کو ڈسپلن میں رکھنے کےلیے ہے جہاں پر کلیئر ہوکہ یہ صرف ممبرز کےلیے ہے وہاں پر مزید کیا ہونا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ اگر کوئی سویلین آرمی انسٹالیشنز پر حملہ کرتا ہےتو اس کا اس سے کیا تعلق ہے؟

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیےکہ یہ صرف ممبرز کےلیے ہے اور اگر آرمی ایکٹ میں سویلینز کو لانا ہوتا تو پھر اس میں الگ سے لکھا جاتا، 1973 کے آئین میں بہت سی چیزیں پہلےوالے دو آئین سے ویسے کی ویسی آگئیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نےکہا کہ مارشل لاء ادوار میں 1973 کے آئین میں بہت سی چیزیں شامل کی گئیں، آئینی ترمیم کرکے مارشل لاء ادوار کی چیزیں تبدیل کرکے 1973 کے آئین کو اصل شکل میں واپس لایا گیا لیکن اس میں بھی آرمی ایکٹ کے حوالے سے چیزوں کو نہیں چھیڑا گیا۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ ملٹری کورٹ کارروائی کو آئین توثیق کرتا ہے اور کورٹ مارشل آئینی طور پر تسلیم شدہ ہے،کورٹ مارشل زمانہ جنگ نہیں زمانہ امن میں بھی ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیےکہ خواجہ صاحب ایسا نہ ہو نمازیں بخشوانے آئیں اور روزے گلے پڑجائیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ سیکشن 2 ون ڈی ون 1967 میں شامل کیاگیا، یہ سیکشن 1962 کے آئین کے نیچے بنایاگیا، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیےکہ آرٹیکل 202 کے تحت دو طرح کی عدالتیں ہیں، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ ملٹری کا قانون آئین سے ٹکراتا ہے،ہمارا 1973 کا آئین بڑا مضبوط ہے،خواجہ حارث نے کہاکہ فیئر ٹرائل کورٹ مارشل کارروائی میں بھی ہوتا ہے،پریذائیڈنگ افسران قانونی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔

جسٹس حسن رضوی نے کہاکہ ملٹری کے 12 سے 13 تنصیات پر حملے ہوئے، ملٹری تنصیبات پر حملے سکیورٹی کی ناکامی تھی اور اس وقت ملٹری افسران کے خلاف کارروائی کی گئی تھی؟کیا 9 مئی پر کسی ادارے نے احتساب کیا؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایاکہ اس سوال کا جواب اٹارنی جنرل دیں گے۔

سپریم کورٹ نے عمر چیمہ کا کیس بانی پی ٹی آئی کے کیس کے ساتھ منسلک کردیا

بعد ازیں عدالت نے دلائل مکمل ہونےپر خواجہ حارث کا شکریہ ادا کیا اور فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت 28 اپریل تک ملتوی کردی۔

Back to top button