عمران خان کو جھوٹ پکڑنے والے ٹیسٹ سے گزارنے کا عدالتی حکم آ گیا

9 مئی 2023 کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزام کا سامنا کرنے والے عمران خان وہ پہلے سابق وزیراعظم بننے جا رہے ہیں جنہیں اپنے خلاف الزامات کی تصدیق کے لیے پولی گرافک ٹیسٹ یعنی جھوٹ پکڑنے کے ٹیسٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایک مقامی عدالت نے پولیس کو عمران خان کا پولی گراف ٹیسٹ یعنی جھوٹ پکڑنے کا ٹیسٹ اور فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ یعنی چہرے اور آواز کے تجزیے والا ٹیسٹ کرنے کی اجازت دے دی ہے، دوسری جانب بانی پی ٹی آئی کے وکلا نے اسے عمران خان کو رسوا کرنے اور انصاف کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی ایک مذموم کوشش قرار دیا ہے۔ 9 مئی کے حملوں کی سازش تیار کرنے کے الزام میں لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے استغاثہ کی تحریری درخواست پر پولیس کو اجازت دے دی ہے کہ وہ عمران کا جھوٹ پکڑنے کا ٹیسٹ کروانے کے علاوہ ان کی آواز اور چہرے کے تاثرات کا اندازہ لگانے والا ٹیسٹ بھی کروائے تاکہ پتہ چل سکے کہ وہ سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ۔ یہ ٹیسٹ 9 مئی کے فسادات سے متعلق 12 مقدمات میں کیے جائیں گے۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ہدایت دی ہے کہ یہ سارے ٹیسٹ بارہ روز کے اندر مکمل کیے جائیں۔ اس دوران استغاثہ کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں تحریک انصاف کے بانی چیئرمین سے ملاقات کی اجازت ہو گی۔ عمران کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے استغاثہ کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ پولیس 9 مئی کے واقعات کے 127 دن بعد یہ ٹیسٹ کیوں کروانا چاہتی ہے۔ وکیل نے دلائل دیے کہ سابق وزیر اعظم کو 19 مقدمات میں پہلے ہی ضمانت دی جا چکی ہے، انکا کہنا تھا کہ اب جن بیانات کی بنیاد پر پولیس عمران خان کا جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ کروانا چاہتی ہے، وہ پہلے ہی لاہور ہائی کورٹ سے غیر قانونی قرار دیے جا چکے ہیں۔
عمران خان کا ساتھ دینے والی وکلاء برادری کا ماننا ہے کہ ایسے غیر ضروری ٹیسٹ کرانے کی اجازت عمران خان کو رسوا کرنے اور انصاف کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔ عمران کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ایسے مقدمات میں اس نوعیت کے ٹیسٹ کروانے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”یہ ٹیسٹ نہ صرف غیر معتبر ہیں بلکہ ان کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں ہے، اور دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد جھوٹے مقدمات میں ایسے ٹیسٹ کروانے کا مطلب یہ ہے کہ استغاثہ کے پاس اپنے الزامات کے حق میں کوئی ثبوت موجود نہیں لہازا وہ برقی مشینوں کا استعمال کرنا چاہتے ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔‘‘
یاد رہے کہ اس وقت عمران خان جیل میں قید ہیں کیونکہ انہیں اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن کے ایک مقدمے میں چودہ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اسی کیس میں سات سال قید کی سزا دی گئی۔ یہ مقدمہ ایک سو نوے ملین پاؤنڈز کی رقم اور عمران خان کے القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ ان پر نو مئی کے فسادات کے دوران ریاستی اداروں پر حملوں کی سازش کا الزام بھی عائد ہے۔ اس سے قبل جنوری میں ان کے خلاف تین مقدمات میں سزائیں سنائی گئی تھیں، جن کا تعلق ریاستی تحائف کی فروخت، ریاستی راز افشا کرنے اور غیر قانونی نکاح سے تھا، تاہم یہ تمام سزائیں یا تو کالعدم قرار دی جا چکی ہیں یا معطل کر دی گئی ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان کو القادر کیس اور نو مئی کے مقدمات میں ضمانت مل جاتی ہے، تو وہ جیل سے باہر آ سکتے ہیں اگر ریاست ان کے خلاف مزید مقدمات درج نہ کرے۔ نو مئی سے متعلق اکیس مقدمات میں پہلے ہی عمران خان کی ضمانت ہو چکی ہے۔ وکلاء کا مؤقف ہے کہ عمران خان کا پولی گرافک ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ ان کی رہائی کو زیادہ سے زیادہ تاخیر کا شکار بنانے کی ایک کوشش ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے مکار مودی کی امیدوں پر پانی کیسے پھیرا؟
ایسے میں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا ماضی میں جھوٹ پکڑنے کے مشینی ٹیسٹ کی بنیاد پر کسی کو سزا ہوئی ہے؟ عمران کے وکیل سلمان صفدر کا کہنا ہے کہ آج تک کسی کو ایسے ٹیسٹوں کی بنیاد پر سزا نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں یہ ٹیسٹ صرف ان مقدمات میں کیے جاتے ہیں جہاں کوئی ثبوت موجود نہ ہو اور صرف ایک ہی شخص دستیاب ہو جو کسی خاص صورتحال کی وضاحت کر سکتا ہو، یعنی وہی شخص جس پر الزام ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”یہ ٹیسٹ آج بھی دنیا بھر میں بہت کم قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے پاس نہ تو وہ مہارت ہے اور نہ ہی وہ جدید سہولیات اور آلات، جو ایسے ٹیسٹوں کے لیے درکار ہوتے ہیں۔‘‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام باتیں غیر متعلقہ ہیں کیونکہ ان ٹیسٹوں کی نہ تو کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی ان کا کوئی مقصد ہے، سوائے اس کے کہ یہ انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کی ایک اور کوشش ہے۔