بجٹ میں فوجیوں کے لیے ریلیف اور سویلینز کے لیے ٹھینگے پر تنقید؟

وفاقی حکومت کی جانب سے فوجی افسران کو بنیادی تنخواہ کا 50 فیصد اور جونیئر رینکس کے اہلکاروں کو 20 فیصد خصوصی ریلیف الاؤنس دینے کا فیصلہ تنقید کی زد میں ہے اور اسے طبقاتی تفریق پر مبنی قرار دیا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ فوجی افسران کی تنخواہوں میں ریلیف الاؤنس کے نام پر بڑا اضافہ اور سویلین ملازمین کے لیے صرف تسلیاں فیصلہ سازوں کی طبقاتی سوچ کی عکاس ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ غیر منصفانہ حکومتی فیصلہ طاقتور اور امیر طبقے کو مذید فائدہ پہنچائے گا جبکہ سویلینز کے احساس محرومی میں اضافہ کرے گا کیونکہ وہ پہلے ہی یہ سمجھتے ہیں کہ انکے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں والا سلوک کیا جا رہا ہے۔ یوں یہ اقدام معاشرتی طبقات کے درمیان فرق کو مزید بڑھا دے گا۔ وزارتِ خزانہ نے ایک حالیہ بریفنگ میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی کو بتایا ہے کہ فوجی افسران کو ان کی بنیادی تنخواہ کا 50 فیصد خصوصی ریلیف الاؤنس دیا گیا ہے، جبکہ جونیئر کمیشنڈ افسران اور سپاہیوں کو آئندہ مالی سال میں 20 فیصد اضافی الاؤنس ملے گا۔تاہم وزارتِ خزانہ نے منتخب اراکین کے سوالات کے جواب میں ریلیف الاؤنسز کے مالی اثرات اور فوجی افسران کو زیادہ ریلیف دینے کی وجہ نہیں بتائی۔ لیکن اراکین کے اصرار پر وزیرِ خزانہ اورنگزیب نے یہ وعدہ ضرعر کیا کہ وہ اس بارے میں متعلقہ حکام سے پوچھ کر جواب فراہم کریں گے۔
دوسری جانب معاشرے کے مختلف حلقوں نے حکومت کی جانب سے فوجی افسران کی تنخواہوں میں ریلیف الاؤنس کے نام پر اضافے کو تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انکا ماننا ہے کہ وفاقی حکومت نے واضح طور پر ایک طبقاتی بجٹ پیش کیا ہے، جو امیر اور طاقتور طبقے کو فائدہ پہنچائے گا جب کہ سویلین سرکاری ملازمین کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ معروف ماہرِ معاشیات قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ حکومت کا بجٹ طبقاتی نوعیت کا ہے، اور فوجیوں کے لیے خصوصی ریلیف الاؤنس میں بھی یہ حقیقت واضح طور پر نظر آتی ہے کہ افسران کو 50 فیصد ریلیف دیا جا رہا ہے، حالانکہ وہ پہلے ہی سویلین ملازمین سے بہتر تنخواہیں اور سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی اعتراض کیا ہے کہ فوجی افسران کے لیے 50 فیصد جبکہ غریب سپاہیوں کے لیے صرف 20 فیصد ریلیف کا اعلان کیا گیا ہے۔
ناقدین نے چیئرمین سینیٹ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی تنخواہوں میں اضافے کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ شرافیہ صرف اپنے مفادات کا خیال رکھتی ہے… اب تو اشرافیہ یہ حقیقت بھی چھپانے کی کوشش نہیں کر رہی کہ وہ صرف اپنے لیے اور اپنے جیسوں کو ریلیف دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کم از کم تنخواہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسے گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی 37 ہزار روپے ماہانہ ہی رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے غریب مزدوروں کی اجرت میں رتی بھر اضافہ نہیں کیا حالانکہ انکا تعلق معاشرے کے سب سے ذیادہ پسے ہوئے طبقے سے ہے۔
ان کے مطابق سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ حکومت مزدور کی موجودہ کم از کم تنخواہ دلوانے میں بھی ناکام رہی ہے، کیونکہ کاروباری حضرات اور صنعت کار مزدوروں کو کم از کم اجرت دینے پربھی تیار نہیں۔
پاکستان میں سب سے زیادہ تنخواہ کون سا طبقہ لے رہا ہے؟
ماہرین اقتصادیات کا ماننا ہے کہ فوجی افسران کے لیے 50 فیصد اضافی ریلیف کا اثر نہ صرف ملکی معیشت پر پڑے گا بلکہ پاکستان میں پہلے سے موجود طبقاتی نظام کو بھی مزید مضبوط کرے گا۔
سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کسی صورت قابلِ ستائش نہیں، کیونکہ دفاعی بجٹ میں پہلے ہی کافی ذیادہ اضافہ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غریب لوگوں کو حکومت نے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دی۔ زاہد حسین کا کہنا ہے کہ افواج پاکستان نے یقینی طور پر بھارت کے خلاف جنگ جیتی ہے لیکن اسکے نتیجے میں ملک کا دفاعی بجٹ پہلے ہی 20 فیصد بڑھایا جا چکا ہے، اس فیصلے سے موجودہ دفاعی بجٹ میں 400 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جو کہ کافی تھا۔
تاہم دفاعی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ فوجی اہلکاروں کو مراعات دینا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ کوئی بھوکا ملک اپنے دشمن کے خلاف جنگ نہیں لڑ سکتا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) خالد نعیم لودھی اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تنخواہوں یا ریلیف الاؤنس میں اضافہ تمام سرکاری ملازمین بشمول فوجی اور سویلینز کے لیے ہونا چاہیے تھا، لیکن اگر وسائل محدود ہیں تو فوج کو پہلے ریلیف دیا جانا چاہیے کیونکہ ہمیں اپنے افسران اور سپاہیوں کو مراعات اور ترغیب دینی ہے جو سرحد پر لڑتے ہیں اور اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔