سپریم کورٹ آج کیا کرنے جا رہی ہے؟

 

سپریم کورٹ آف پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نواز اور اسٹیبلشمنٹ مخالف ججوں کی دھڑے بندی کھل کر سامنےآگئی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس جنگ میں ریاست کے ہاتھوں اپنے بنیادی حقوق سے محروم کر دیے جانے والے صحافیوں کی آئینی پٹیشن پر ان کی داد رسی کی جاتی ہے یا اعلیٰ عدلیہ بھی اس ظلم میں ریاست کے اتحادی کا کردار ادا کرتی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بنیادی آئینی حقوق سے متعلق دائر کردہ ایک کیس کی سماعت شروع ہونے کے بعد اس سننے والے دو رکنی بنچ کو تحلیل کر کے ایک نیا پانچ رکنی بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسی تھے جبکہ پانچ رکنی بینچ کی سربراہی جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ سینئر صحافی عامر میر اور عمران شفقت کی گرفتاری، صحافیوں کو ہراساں کرنے اور آزادی اظہار پر عائد کردہ قدغنوں کے خلاف ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ رپورٹرز اور پانچ صحافیوں کی دائر کردہ آئینی درخواست پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈی جی ایف آئی اے کو 26 اگست کو طلب کیا تھا۔
اس درخواست کی سماعت کرنے والے دو رکنی بنچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندو خیل شامل تھے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر اب قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ تشکیل دے دیا ہے اور پہلا بنچ اور اسکی جانب سے ڈی جی ایف آئی اے کی طلبی کا حکمنامہ ختم کر دیا ہے۔ نئے 5 رکنی بنچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس قاضی محمد امین اور حال ہی میں ترقی پانے والے جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کیس کی پہلی سماعت کرنے والے بنچ کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر مندوخیل کو نئے بنچ میں شامل نہیں کیا گیا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ 20 اگست کو اس کیس کی سماعت کے بعد جاری حکم نامے میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے ہدایت کی تھی کہ یہ کیس 26 اگست کو اسی بینچ کے سامنے لگے گا جس نے اس کی پہلی سماعت کی ہے۔ تاہم قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس بنچ کو ختم کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں نیا بنچ تشکیل دے دیا ہے۔
21 اگست کی رات اسسٹنٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ہونے والی سپلیمنٹری کاز لسٹ کے مطابق کیس کی سماعت اب 23 اگست بروز پیر صبح ساڑھے 9 بجے مقرر کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے سینئر صحافی عامر میر اور عمران شفقت کو 7 اگست 2021 کو وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے گرفتار کرنے پر ڈی جی ایف آئی اے کو 26 اگست کو عدالت میں طلب کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ احکامات آرٹیکل(3) 184 کے تحت دائر کردہ ایک آئینی درخواست پر جاری کیے تھے۔ پٹیشنرز میں پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ، عبدالقیوم صدیقی، عامر میر، عمران شفقت، اسد طور اور امجد بھٹی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کو 26 اگست کو عدالت میں طلب کیا گیا تھا ان میں سیکرٹری انفارمیشن، سیکریٹری وزارت انسانی حقوق، آئی جی اسلام آباد اور سیکریٹری داخلہ شامل تھے۔ طلب کیے جانے والے افسران کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ صحافیوں پر ہونے والے تشدد کے واقعات، ان کی گرفتاریوں اور اغوا کے کیسوں کی مکمل پیش رفت رپورٹس کے ہمراہ ذاتی حثیت میں عدالت میں حاضر ہوں۔ اس کے علاوہ صحافتی تنظیموں سی پی این ای، اے پی این ایس، پی بی اے، اور پی ایف یو جے کو بھی نوٹسز جاری کیے گے تھے تاکہ وہ صحافیوں اور میڈیا کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کے حوالے سے اپنا موقف بیان کر سکیں۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور دیگر سرکاری افسران کو حکم جاری کیا تھا کہ وہ صحافیوں کو ہراساں کرنے، اور ان کے اغوا، گرفتاریوں اور ہراسانی کے واقعات کے بارے اپنے تحریری جوابات 26 اگست 2021 تک عدالت میں جمع کرائیں اور یہ کہ اس کیس کو 26 اگست کو اسی دو رکنی بنچ کے سامنے لگایا جائے۔ سپریم کورٹ نے آئین پاکستان کے آرٹیکل (3)184 کے تحت دائر کردہ پٹیشن کی سماعت کے بعد عامر میر اور عمران شفقت کیس میں 20 اگست 2021 کو جاری کردہ حکمنامے میں بنیادی نکتہ یہ اٹھایا تھا کہ دونوں سینیئر صحافیوں کی گرفتاری کے بعد ایف آئی اے نے جو پریس ریلیز جاری کی اس میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ یہ لوگ عدلیہ کی تضحیک میں ملوث ہیں مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ انہوں نے کس طرح عدلیہ کہ تضحیک کی۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم نامے میں ایف آئی اے حکام سے پوچھا کہ یہ تاثر کیوں دیا جا ریا ہے کہ صحافیوں کے ساتھ زیادتی میں عدلیہ بھی حکومت اور ریاست کی معاون بنی ہوئی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کیس کی سماعت کرنے والے دو رکنی بنچ نے سماعت کے بعد جاری کردہ اپنے حکم نامے میں لکھا کہ عدالت عظمیٰ میں پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے موجودہ اور سابق صدر کی جانب سے ایک درخواست جمع کروائی گئی ہے جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کی جانب سے شہریوں کو آئین پاکستان میں دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔ درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا ہے کہ ملک بھر میں صحافی حضرات کو ہراساں کیا جاتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ان پر جان لیوا حملے کیے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے حملہ آور کبھی قانون کی گرفت میں نہیں آتے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 میں صحافیوں کو اظہار رائے کی جو آزادی دی گئی ہے اسے یقینی بنانے کے لیے جن اداروں کو ذمہ دار اور نگہبان ٹھہرایا گیا ہے، وہی اس گھناؤنے فعل میں ملوث ہیں۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں لکھا ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو گرفتار کرنے کے بعد جاری کردہ پریس ریلیز میں یہ مؤقف دیا گیا کہ انہیں اس وجہ سے گرفتار کیا گیا کہ یہ عدلیہ کی تضحیک میں ملوث ہیں۔ تاہم ایف آئی اے نے ایسا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جس سے ثابت ہو کہ آخر ان صحافیوں نے کس طرح عدلیہ کے وقار کو مجروح کیا جس وجہ سے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جناح کے پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن ایف آئی اے کی جانب سے ان دو صحافیوں کی گرفتاری کے بعد جاری کردہ پریس ریلیز سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کے خلاف بنائے گئے کیسز دراصل عدلیہ کی ایما پر قائم کیے گئے۔ یعنی یہ بے بنیاد تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کی بجائے ان کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ جسٹس فائز عیسی نے لکھا کہ سنیئر صحافیوں کی گرفتاری اور پریس ریلیز میں دیئے گئے منفی تاثر سے ثابت ہوتا ہے کہ ایف آئی اے نے اپنی حدود اور قوانین سے تجاوز کرتے ہوئے انسانی حقوق اور انصاف کی فراہمی سے متعلق عدلیہ پر شہریوں کے اعتماد کو متزلزل کرنے کی کوشش کی۔ اس صورتحال میں عدلیہ کی عزت قدر و منزلت اور عوام کا اس ادارے پر اعتماد مجروح ہوا اور عدلیہ کو بھی ایف آئی اے کا معاون سمجھا گیا جو کہ حقائق کے سراسر منافی ہے۔
جسٹس عیسی نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ ڈی جی ایف آئی اے، جن کی باقاعدہ منظوری اور مرضی کے بغیر ایف آئی اے یہ پریس ریلیز جاری نہیں کر سکتا تھا اور جنہوں نے آج دن تک اس پریس ریلیز کو واپس بھی نہیں لیا، انہیں نوٹس جاری کیا جاتا ہے کہ وہ بتائیں کہ آخر انہوں نے کس طرح یہ پریس ریلیز جاری کی۔ عدالت نے حکم دیا کہ ڈی جی ایف آئی اے اپنا تحریری جواب ذاتی طور پر پیش ہو کر جمع کروائیں اور وضاحت کریں کہ انہوں نے اپنی پریس ریلیز میں عدلیہ کو کیوں ملوث گیا اور اگر ڈی جی نے یہ پریس ریلیز جاری نہیں کروائی تو انہوں نے اسے واپس کیوں نہیں لیا۔ عدالتی حکم نامے میں ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے جواب کے ساتھ کیس کی سماعت کے موقع پر عدالت کے روبرو حاضر ہوں اور ساتھ ہی صحافیوں کے خلاف مقدمات کا تمام ریکارڈ بھی لے کر آئیں۔ ڈی جی ایف آئی اے کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملک کے تمام صحافیوں کے خلاف دائر کردہ تمام کیسز کا ریکارڈ عدالت کے روبرو پیش کریں۔ پیش کیے جانے والے ریکارڈ میں صحافیوں کے خلاف مقدمات کی نوعیت اور متنازعہ مواد کا ٹرانسکرپٹ بھی پیش کیا جائے جس سے یہ ثابت ہو کہ ان صحافیوں نے واقعی کوئی قابل دست اندازی جرم کیا ہے۔
تاہم اب نہ صرف اس کیس کی سماعت کیلئے ایک 5 رکنی لارجز بنچ تشکیل دیا جا چکا ہے بلکہ اسکی سماعت بھی 26 اگست کی بجائے 23 اگست کو مقرر کر دی گئی ہےلیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا اپنے بنیادی آئینی حقوق کے تحفظ کی خاطر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے والے صحافیوں کو انصاف مل پاتا ہے یا نہیں؟

Related Articles

Back to top button