25 ارب روپے کی ٹیکس نادہندگی: ایف بی آر نے جاز کا مرکزی دفتر سیل کردیا

پاکستان فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے پاکستان کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی جاز (سابقہ موبی لنک) پر 25 ارب روپے کے ٹیکس نادہندہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت میں کمپنی کے دفتر کو سیل کر دیا ہے۔
ایف بی آر کے لارج ٹیکس پیئرز یونٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان موبائل کمیونیکیشن لمیٹڈ (پی ایم سی ایل) یعنی جاز 25 ارب روپے سے زائد کی انکم ٹیکس نادہندہ ہے اور ٹیکس ادا نہ کرنے کے باعث اس کے اسلام آباد میں موجود دفتر کو سیل کیا جاتا ہے۔ایف بی آر نوٹیفکیشن کے مطابق ’پاکستان موبائل کمیونیکشن لمیٹیڈ نے جان بوجھ کر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا اور اس کے لیے غیر قانونی عذر پیش کیے اور قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔‘ پاکستان موبائل کمیونیکیشن لمیٹڈ نے ان الزامات کی تردید کی ہے مگر یہ تصدیق کی ہے جاز کا اسلام آباد میں آفس سیل کر دیا گیا ہے۔اس بارے میں ایف بی آر ترجمان ندیم رضوی سے جب رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اس متعلق مزید تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’ایف بی آر کے ڈھائی لاکھ صارفین ہیں میں ہر ایک کیس کی تفصیلات سے آگاہ نہیں ہوں، اس ضمن میں آپ متعلقہ حکام سے رابطہ کریں۔‘جاز کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن عائشہ سروری نے بتایا کہ ’جاز قانون کی پاسداری کرنے والی ایک ذمہ دار کمپنی ہے۔ گذشتہ روز ہمیں ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس نادہندہ ہونے اور دفتر سیل کیے جانے کا نوٹس ملا تھا۔‘ انھوں نے وضاحت کی کہ ’کمپنی نے قانون کے مطابق ٹیکس ادائیگی کی ہے تاہم ہم اس کا دوبارہ جائزہ لیں گے اور اس ضمن میں تمام قانونی ذمہ داریاں پوری کریں گے اور جلد ہی متعلقہ اداروں کے ساتھ اس معاملے کو مشترکہ رضامندی اور افہام و تفہیم کے تحت حل کر لیا جائے گا۔‘ ٹیلی کام کمپنی جاز نے ’دیودار پرائیویٹ لمیٹڈ‘ کے نام سے اپنی ایک ذیلی کمپنی بنائی ہے جو جاز کو موبائل ٹاورز لگا کر دیتی ہے اور جاز ملک بھر میں مختلف شہروں میں موبائل سگنل ٹاورز اپنی اس ذیلی کمپنی کے ذریعے لگاتا ہے۔
ایف بی آر کا موقف ہے کہ ٹیلی کام کمپنی جاز نے اپنی ذیلی کمپنی سے حاصل ہونے والا منافع یعنی کیپیٹل گین پر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ جبکہ ٹیلی کام کمپنی کی قانونی اور آڈٹ ٹیم کا موقف ہے کہ پاکستان کے انکم ٹیکس قوانین کے تحت کمپنی اپنی ہی ذیلی کمپنی سے لین دین پر انکم ٹیکس دینے کی پابند نہیں ہے۔ جاز کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن عائشہ سروری نے ایف بی آر کے ساتھ اس تنازع کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور ٹیلی کام کمپنی جاز کے درمیان پاکستان انکم ٹیکس آرڈینینس کے سیکشن 97 کے تحت اختلاف پایا جاتا ہے اور اب تک یہ موقف ہے کہ پاکستان کے انکم ٹیکس قوانین کے تحت انکم ٹیکس قانون کی شق 97 کی ہماری تشریح ٹھیک ہے اور ہم کوئی ٹیکس نادہندہ نہیں ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس ضمن میں ہم نے اس معاملے کو پہلے انکم ٹیکس کمشنر کے سامنے اپیل میں اٹھایا، اس کے بعد ایف بی آر کے ان لینڈ ریونیو کے اپیلٹ ٹربیونل میں بھی معاملے کو لے کر گئے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی حکم امتناع حاصل کر رکھا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مگر جب ہماری اپیل اپیلٹ ٹربیونل سے خارج ہوئی تو قانون کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ سے حاصل کردہ حکم امتناع بھی ختم ہو گیا۔‘ ایف بی آر کی جانب سے کمپنی پر ٹیکس نادہندہ ہونے اور اس کے مرکزی دفتر کو سیل کرنے کے اقدام پر بات کرتے ہوئے عائشہ سروری کا کہنا تھا کہ ’جو کمپنی گذشتہ 25 برس سے ملک میں کام کر رہی ہے اور ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے اس کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے آپ چند کاروباری اخلاقیات کا خیال رکھتے ہیں اور کمپنی کو کچھ وقت دیتے ہیں لیکن ایف بی آر نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوری طور پر سنگین اقدام اٹھایا۔‘ انھوں نے ایف بی آر پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’نوٹس ملنے کے چند گھنٹوں بعد ہی ایف بی آر کی ٹیم نے دفتر میں گھس کر ہمارے عملے کو ہراساں کرنے کی کوشش کی اور گرفتار کرنے کی دھمکیاں دیں۔‘
وہ کہتی ہے کہ ’ہمارا پورا عملہ پریشان تھا کہ کیا ہوا ہے، کیا کووڈ کی ریڈ (چھاپہ) پڑا ہے یا کیا ہوا ہے۔‘ عائشہ سروری نے ایف بی آر کی اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب آپ کی معیشت ڈوب رہی ہے اور جب ملک کی بڑی کمپنیاں ٹیکس ادا کرنے کی بجائے ملکی اداروں کے ساتھ قانونی چارہ جوئی کر رہی ہیں، ایسے وقت میں اس کمپنی کے ساتھ جو ملک میں 25 برس سے معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے، کے لیے اس طرح کی خوف کی فضا قائم کرنا مناسب نہیں ہے۔‘عائشہ سروری کا کہنا ہے کہ ’ایف بی آر اور جاز کے درمیان ابھی تک اس نقطہ پر تنازع ہے اگر عدالت ہمیں کہہ دیتی ہے تو ہمیں ٹیکس کی رقم ادا کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن کل جو اقدام اٹھایا گیا اس کی ضرورت نہیں تھی۔‘ان کا کہنا تھا ’حکومتی اداروں کی جانب سے طاقت کے استعمال کا مطلب ہے کہ آپ سے چیزیں سنبھالی نہیں جا رہی اور آپ کسی بھی کارپوریٹ ادارے کو باقاعدہ موقع فراہم کرنے کی بجائے ہراساں کرنے کی پالیسی اختیار کر رہے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ایک طرف ہمیں ایف بی آر سے ہر سال ملک کے بڑے انکم ٹیکس دہندہ کی حیثیت سے ایوارڈ ملتا ہے تو دوسری جانب یہ اقدام سامنے آتا ہے، حکومتی اداروں کے مابین رابطے کا فقدان ہے۔ یہ اقدام ملک میں کاروبار میں آسانی کی کوشش کو آپ خراب کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ ملک سے سرمایہ کاروں کو بھگانے کے مترادف ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button