31 مارچ کے بعد افغانوں کو گرفتار کر کے ملک بدر کرنے کا فیصلہ

افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے اور غیر قانونی افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی سے متعلق ڈیڈ لائن  قریب آنے کے ساتھ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کمر کس لی ہے۔ جہاں ایک طرف افغان مہاجرین کی لسٹیں مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے وہیں متعلقہ حکام نے رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس نہ لوٹنے والے افغان باشندوں کے خلاف یکم اپریل سے کریک ڈاؤن کی حکمت عملی مرتب کر لی ہے۔ جس کے تحت جہاں افغان باشندوں کو گرفتار کر کے فوری ملک بدر کیا جائے گا وہیں ایسے افغانوں کو رہائش گاہیں فراہم کرنے والے پاکستانیوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی۔

سرکاری طور پر ابھی تک یہ واضح نہیں کہ متعلقہ ڈیڈ لائن ختم ہونے پر واپس نہ جانے والے افغان مہاجرین کے خلاف کیا کارروائی ہوگی۔ لیکن سرکاری ذرائع کے حوالے سے ضرور کہا جارہا ہے، جو افغان سٹیزن کارڈ ہولڈر اور غیر قانونی افغان مہاجرین اکتیس مارچ تک رضاکارانہ طور پر واپس نہیں جائیں گے، ان کے خلاف یکم اپریل سے کریک ڈاؤن شروع کردیا جائے گا۔ اس سلسلے میں تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان مہاجرین اور پاکستان کا تعلق تقریباً پینتالیس سال پرانا ہے۔ جب دسمبر انیس سو اناسی میں سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو افغانستان سے مہاجرین کے آنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ دس برس یہ جنگ جاری رہی۔ اس دوران لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان آئے۔ تقریباً ستائیس برس تک یہ لاکھوں افغان مہاجرین بغیر کسی شناختی ڈاکومنٹ کے پاکستان میں زندگی گزار رہے تھے۔ انہیں کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ تاہم دو ہزار سات میں نادرا کی جانب سے افغان مہاجرین کے لیے پروف آف رجسٹریشن پی او آر کارڈز جاری کئے گئے۔ یہ پی او آر کارڈ ایک ایسی شناختی دستاویز بن گئے جس کے تحت افغان مہاجرین کو قانونی طور پر پاکستان میں رہنے کی اجازت مل گئی۔

ذرائع کے مطابق اس وقت پاکستان میں افغان مہاجرین کی مجموعی تعداد اکتیس لاکھ سے سینتیس لاکھ بتائی جاتی ہے۔ ان میں پی او آر کارڈ ہولڈرز تقریباً چودہ لاکھ ہیں جبکہ اے سی سی افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی تعداد آٹھ سے نو لاکھ کے قریب ہے۔ لیکن اکتیس مارچ کے بعد ان تمام اے سی سی کارڈ ہولڈر افغان مہاجرین کی حیثیت بھی غیر قانونی ہوجائے گی۔ کیوں کہ پہلے مرحلے میں حکومت نے اے سی سی کارڈ ہولڈر افغان مہاجرین کو رضاکارانہ طور پر واپس جانے کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ان دو کٹیگریز کے علاوہ پاکستان میں افغان مہاجرین کی تیسری کٹیگری وہ ہے جن کے پاس دونوں میں سے کوئی کارڈ نہیں۔ سرکاری طور پر ایسے غیر قانونی تارکین وطن افغان باشندوں کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ تاہم آزاد ذرائع کے مطابق یہ تعداد آٹھ سے دس لاکھ ہے۔ اکتیس مارچ کی ڈیڈ لائن افغان سٹیزن کارڈ ہولڈر اور غیر قانونی تارکین وطن’ دونوں کے لیے ہے۔ جبکہ آخری مرحلے میں پروف آف رجسٹریشن یعنی پی او آر کارڈ ہولڈرز کو مزید تین ساڑھے تین ماہ پاکستان میں قیام کی مہلت دی گئی ہے جو جون دو ہزار پچیس تک ہے۔

اکتیس مارچ کی ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد واپس نہ جانے والے اے سی سی کارڈ ہولڈرز اور غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف حکومت کی جانب سے یکم اپریل کو کریک ڈائون کی تیاریوں کی خبریں چل رہی ہیں۔ جس کے مطابق افغان طلبا و طالبات کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جارہا ہے۔ ایک فارم کے ذریعے یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں سمیت دیگر تعلیمی اداروں سے تفصیلات جمع کی جارہی ہیں۔ اے سی سی کارڈ ہولڈرز اور غیر قانونی افغان مہاجرین کے علاوہ ان لوگوں کا ڈیٹا بھی جمع کیا جارہا ہے جنہوں نے افغان شہریوں کو مکانات اور دکانیں کرائے پر دے رکھی ہیں۔ تاکہ مکانات اور دکانوں کے یہ پاکستانی مالکان اکتیس مارچ تک ہر صورت اے سی سی کارڈ ہولڈرز اور غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں سے اپنی پراپرٹی خالی کرالیں۔اس سلسلے میں تمام متعلقہ ادارے متحرک ہوچکے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ حکومت اکتیس مارچ کی ڈیڈ لائن تک انتظار کرے گی کہ رضاکارانہ طور پر کتنے اے سی سی کارڈ ہولڈرز اور غیر قانونی افغان مہاجرین واپس جاتے ہیں۔ اس کے بعد گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگا۔اس عمل کے دوران غیر قانونی افغان مہاجرین اور اے سی سی کارڈ ہولڈرز کو مکانات اور دکانیں کرائے پر دینے والے پاکستانیوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ وفاق کی جانب سے تمام صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی جاچکی ہے کہ وہ اکتیس مارچ کی ڈیڈ لائن تک اے سی سی اور غیر قانونی افغان مہاجرین کی بے دخلی کو یقینی بنائیں۔ یکم اپریل کو کریک ڈاؤن شروع ہوجائے گا۔

کیا کوئٹہ میں دفن کردہ 13 لاشیں واقعی بلوچ دہشتگردوں کی تھیں ؟

خیال رہے کہ حکومت نے اعلان کر رکھا ہے کہ جو افغان مہاجرین اکتیس مارچ کی ڈیڈ لائن تک رضاکارانہ طور پر واپسی کریں گے، انہیں کھانے پینے سمیت ہر قسم کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ تاہم جو حکومتی احکامات کو نظر انداز کر دیں گے، ان کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے برعکس حکومت پاکستان کا خیال ہے کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی مجموعی تعداد چوالیس لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں سے چون فیصد خیبرپختونخوا میں ہیں۔ چوبیس فیصد کے قریب بلوچستان اور باقی کراچی، اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر شہروں میں آباد ہیں۔ ذرائع کے مطابق خاص طور پر جڑواں شہروں اسلام آباد و راولپنڈی میں مقیم اے سی سی کارڈ ہولڈرز افغان باشندوں کو وہاں سے نکال کر خیبر پختونخوا میں افغان بارڈر کے پاس کیمپوں میں پہنچایا جائے گا، تاکہ آسانی سے ڈی پورٹ کیا جاسکے۔ افغان مہاجرین کی اکثریت پاکستان میں چار دہائیوں سے آباد ہے۔ یہاں ان کی شادیاں ہوئیں۔ بچے پیدا ہوئے۔ کاروبار ہیں۔ پراپرٹی ہے اور ان کی تیسری نسل یہاں تعلیم حاصل کررہی ہے۔ لہٰذا اس قدر مختصر عرصے میں ان کا سب کچھ چھوڑ کر جانا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔

Back to top button