ججز کا موقف سنے بغیر ہی توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا : جسٹس محمد علی مظہر

سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کے دو رکنی بینچ کے فیصلے پر بات کرتےہوئے جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ شفاف ٹرائل کا حق سب کو ہے لیکن شاید ججز کو نہیں،ججز کو نوٹس کیے بغیر موقف سنے بغیر ہی توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نےکہاکہ ہمیں نوٹس دےدیتے ہم چار ججز ان کی عدالت میں پیش ہوجاتے۔

سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کو جاری شوکاز نوٹس کےخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار کی انٹرا کورٹ اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹادی ہے،تاہم دوران سماعت ججز کے اختلافی ریمارکس سامنے آئے۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہاکہ بینچ کی اکثریت انٹرا کورٹ اپیل نمٹانے کی وجوہات دےگی۔

اپیل پر سماعت کرتے ہوئے آئینی بینچ کے رکن جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیےکہ توہین عدالت کیس کے فیصلے میں مبینہ طور پر توہین کرنےوالوں میں چیف جسٹس پاکستان کو بھی شامل کیاگیا،کیا توہین کے ملزم بن کر چیف جسٹس خود بینچ بنا سکتے ہیں۔

سماعت کے دوران 2 رکنی بینچ کے توہین عدالت فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ ایک مسئلہ ہے،یہ فیصلہ ہمارے سامنے چیلنج نہیں ہے،فیصلے کا جائزہ تب لےسکتے ہیں جب چیلنج ہوا ہو۔

جسٹس شاہد وحید نےکہا کہ اگر فیصلے پر سوموٹو لینا ہےتو اس کا اختیار آئینی بینچ کے پاس ہے،جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ خدانخواستہ اس وقت ہم سب بھی توہینِ عدالت تو نہیں کر رہے؟

اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نےکہاکہ اب یہ فیصلہ عدالتی پراپرٹی ہے، ایک بار سارے معاملے کو دیکھ لیتےہیں تاکہ روز کا جو تماشہ لگا ہوا ہے یہ ختم ہو، دیکھ لیتےہیں یہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کیسے ہوئی،کیا کمیٹیوں کے فیصلے اس بینچ کےسامنے چیلنج ہوئے تھے؟

جسٹس جمال مندوخیل نےکہا میں روز سنتا ہوں کہ مفادات سے ٹکراؤ کا معاملہ ہے،اس لیے ہم نہ بیٹھیں،آئینی بینچ میں شامل کر کے ہمیں کون سی مراعات دی گئی ہیں؟ ہم روزانہ دو دو بینچ چلارہے ہیں،دو چیزوں کو پڑھ کر  آتےہیں،کیا یہ مفادات سے ٹکراؤ ہے؟

جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیےاگر آئینی بینچ میں بیٹھنا ہمارا مفاد ہےتو پھر شامل نہ ہونےوالے متاثرین میں آئیں گے، مفادات سےٹکراؤ والے اور متاثرین،دونوں پھر کیس نہیں سن سکتے، ایسی صورت میں پھر کسی ہمسایہ ملک کے ججز لانا پڑیں گے، کوئی مجھے بتادے ہمیں آئینی بینچ میں بیٹھ کر کیا فائدہ مل رہا ہے؟ ہمارا واحد مفاد آئین کا تحفظ کرناہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ جس انداز میں توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا میں کمیٹی اجلاس میں نہیں جاؤں گا،توہینِ عدالت کے نوٹس کا سلسلہ ختم ہو، اس لیےچاہتے ہیں ایسے حکم جاری نہ ہوں،مستقبل میں آنےوالے ساتھی ججز کو توہین عدالت سے بچانا چاہتے ہیں۔

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نےکہاکہ آج ایک سینئر سیاستدان کا بیان چھپا ہوا ہے ملک میں جمہوریت نہیں،بیان ہےکہ ملک آئین کےمطابق نہیں چلایا جارہا، بدقسمتی ہےکہ تاریخ سےسبق نہ ججز نے سیکھا،نہ سیاستدانوں اور نہ ہی قوم نے، 6 ججز کا عدلیہ میں مداخلت کا خط آیاتو سب نے نظریں ہی پھیرلیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نےوکیل سے سوال کیاکہ کیا آپ نے 2 رکنی بینچ میں فل کورٹ کی استدعا کی تھی؟ اس پر وکیل شاہد جمیل نے کہاکہ اس بینچ میں بھی استدعا کررہا ہوں کہ فل کورٹ ہی اس مسئلےکو حل کرے۔

جسٹس مندوخیل نےکہاکہ اگر ہم آرڈر کریں اور فل کورٹ نہ بنے تو ایک اور توہین عدالت شروع ہوجائے گی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ توہین عدالت قانون میں پورا طریقہ کار بیان کیاگیا ہے،دونوں کمیٹیوں کو توہین کرنےوالے کے طور پر ہولڈ کیا گیا،طریقہ کار تو یہ ہوتا ہے پہلے نوٹس دیا جاتا ہے،ساری دنیا کےلیے آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کا حق ہے،کیا ججز کےلیے آرٹیکل 10 اے دستیاب نہیں، جو فل کورٹ بنےگا کیا اس میں مبینہ توہین کرنےوالے چار ججز بھی شامل ہوں گے،۔

جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ ہمیں نوٹس دےدیتے ہم چار ججز ان کی عدالت میں پیش ہوجاتے۔

جسٹس شاہد وحید نے کہاکہ کیا انٹرا کورٹ اپیل میں وہ معاملہ جو عدالت کے سامنےہی نہیں کیا اسے دیکھ سکتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ سوموٹو میں ہی ساری دنیا کو توہین عدالت کا ملزم بنایاگیا ہے، کیا اب ہم انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کریں گے؟

سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا

بعد ازاں عدالت نے درخواست گزار کی جانب سے درخواست واپس لینے پر کیس نمٹا دیا۔

Back to top button