26ویں آئینی ترمیم کے باوجود عمرانڈو ججز قابو کیوں نہیں آ رہے ؟

وفاقی حکومت کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیم لانے کے باوجود عمرانڈو ججز اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہے اور مسلسل حکومت اور چیف جسٹس یحیی آفریدی کے لیے پریشانیاں کھڑی کرتے نظر آتے ہیں۔ اب سپریم کورٹ کے چار ججز نے اسلام آباد میں ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیے گئے تین ججز کی تعیناتی کے خلاف چیف جسٹس یحیٰی آفریدی کو ایک خط لکھتے ہوئے کہا ہے کہ 26ویں ترمیم کیس کے فیصلے تک سپریم کورٹ میں 8 نئے ججز کی تعیناتی روکی جائے تاکہ وہ اس کیس کے فیصلے پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔
واضح رہے کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس 11 فروری کو ہوگا، جس میں سپریم کورٹ میں 8 خالی نشستوں پر ججز کی تعیناتی کے لیے غور کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ 26 ویں ترمیم کیس میں آئینی بینچ فل کورٹ بنانے کا کہہ سکتا ہے، نئے ججز آئے تو فل کورٹ کون سی ہو گی یہ تنازع بنے گا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین ججز ٹرانسفر ہوئے، آئین کے مطابق نئے ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوبارہ حلف لازم تھا، حلف کے بغیر ان ججز کا جج ہونا مشکوک ہوجاتا ہے۔
عمرانڈو قرار پانے والے ججز نے خط میں مؤقف اپنایا کہ اس کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ میں سنیارٹی لسٹ بدلی جا چکی، موجودہ حالات میں ججز لانے سے کورٹ پیکنگ کا تاثر ملے گا، پوچھنا چاہتے ہیں عدالت کو اس صورتحال میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ کس کے ایجنڈے اور مفاد پر عدالت کو اس صورتحال سے دوچار کیا جا رہا ہے؟
ججز نے مؤقف اپنایا کہ 26 ویں ترمیم کے فیصلے تک ججز تعیناتی مؤخر کی جائے، کم از کم آئینی بینچ سے فل کورٹ کی درخواست پر فیصلے تک تعیناتی مؤخر کی جائے۔ خط میں چار ججز کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کی سینیارٹی طے ہونے تک ججز تعیناتی روکی جائے۔
چار ججز نے خط میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں حالیہ ججز ٹرانسفر پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق ججز کا تبادلہ عارضی طور پر ہوسکتا ہے مستقل نہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ججز کا تبادلہ مقررہ وقت کے لیے ہی ہوسکتا ہے غیرمعینہ مدت کے لیے نہیں، مدت مقرر نہ ہونے کا مطلب ہے کہ تبادلے کا حکم کسی بھی وقت واپس لیا جا سکتا ہے۔
ججز نے مؤقف اپنایا کہ تبادلہ اسی صورت ممکن ہے جب ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد پوری ہو، تبادلے کے بعد آئینی طور پر ججز حلف لینے کے بھی پابند ہیں، ججز کا حلف اسی ہائی کورٹ کے لیے ہوتا ہے، جس کے لیے انہیں تعینات کیا گیا ہو۔
عمرانڈو ججز کی جانب سے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ ججز کا حلف تمام ہائی کورٹس کے لیے نہیں ہوسکتا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئینی نکات بالائے طاق رکھتے ہوئے ازخود سینیارٹی کا تعین کر لیا۔
ججز نے لکھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا سینیارٹی میں 15ویں نمبر کا جج اسلام آباد میں سینیئر ترین جج بنا دیا گیا، سینیئر ترین جج ہونے کے باعث سرفراز ڈوگر اب سپریم کورٹ کے بھی اہل ہوچکے، ججز کی سینیارٹی کیسے تبدیل ہوسکتی ہے؟ ججز نے مزید کہا کہ آئینی بینچ اگر فل کورٹ کی درخواستیں منظور کرتا ہے تو فل کورٹ تشکیل کون دے گا؟ ججز کا کہنا تھا کہ اگر فل کورٹ بنتی ہے تو کیا اس میں ترمیم کے تحت آنے والے ججز شامل ہوں گے؟ اگر نئے ججز شامل نہ ہوئے تو پھر سوال اٹھے گا کہ تشکیل کردہ بینچ فل کورٹ نہیں، اگر موجودہ آئینی بینچ نے ہی کیس سنا تو اس پر بھی پہلے ہی عوامی اعتماد متزلزل ہے۔
نواز شریف، خاندان کی جانشینی مریم کو سونپیں گے یا شہباز کو ؟
خط میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ عوام کو موجودہ حالات میں ’کورٹ پیکنگ‘ کا تاثر مل رہا ہے، جاننا چاہتے ہیں کس کے ایجنڈا اور مفاد کے لیے عدالت کی تذلیل کی جا رہی ہے؟ واضح رہے کہ یکم فروری کو صدر مملکت آصف زرداری نے لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے ایک، ایک جج کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ کردیا تھا۔ اس سے قبل 31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے دوسری ہائی کورٹ سے جج لا کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس بنانے کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
صدر آصف زرداری نے آئین کے آرٹیکل 200 کی شق (ون) کے تحت تین ججز کے تبادلے کیے تھے، جن کا نوٹی فکیشن وزارت قانون اور انصاف کی جانب سے جاری کر دیا گیا۔ نوٹی فکیشن کے مطابق جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کا لاہور ہائی کورٹ، جسٹس خادم حسین سومرو کا سندھ ہائی کورٹ اور جسٹس محمد آصف کا تبادلہ بلوچستان ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیا گیا۔ اب اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیے جانے والے جسٹس سرفراز ڈوگر اگلے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ بننے جا رہے ہیں۔