کیا جنرل عاصم منیر نے انڈیا کو پہلگام حملے کی دھمکی دی تھی؟

بھارتی میڈیا کی جانب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ایک حالیہ تقریر کو پہلگام حملوں سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں انہوں نے دہشت گردوں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کشمیر کے معاملے پر چوتھی جنگ سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ کشمیر سے متعلق اُن کے بیان نے، جو 22 اپریل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے سے چند روز قبل دیا گیا تھا، پاکستان کی عسکری پالیسی اور خطے میں بڑھتی کشیدگی میں اس کے کردار پر بحث چھیڑ دی ہے۔
یاد رہے کہ پہلگام میں ہونے والا حملہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں گذشتہ دو دہائیوں میں عام شہریوں پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ تھا، اور انڈیا نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے، جس کی پاکستان نے تردید کی ہے، لیکن اب یہ خدشات بڑھتے جا رہے ہیں کہ انڈیا فوجی کارروائی کی صورت میں ردعمل دے سکتا ہے۔ خیال رہے کہ جنرل عاصم منیر نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد عوامی سطح پر زیادہ بیانات نہیں دیے، مگر ان کی 17 اپریل کی تقریر نے خاصی توجہ حاصل کی ہے۔پاکستانی تارکین وطن کے لیے اسلام آباد میں منعقد ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھق کہ پاکستانی اور ہندو، مذہب سے لے کر طرزِ زندگی تک ہر لحاظ سے مختلف ہیں۔
انھوں نے کشمیر کو پاکستان کی ’شہ رگ‘ قرار دیا اور کہا کہ پاکستان ’کشمیر کے عوام کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔‘ یہ تقریر ماضی میں پاکستانی رہنماؤں کی جانب سے دی جانے والی کئی نظریاتی تقاریر جیسی ہی رہتی، اگر اس کے کچھ ہی دنوں بعد پہلگام کا حملہ نہ ہوتا۔ اس تقریر کے پانچ ہی روز بعد یعنی 22 اپریل کو، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 26 افراد ہلاک ہو گئے۔ چنانچہ اب بھارتی میڈیا پروپگینڈا کر رہا ہے کہ یہ عاصم منیر کی جانب سے معمول کی بیان بازی نہیں تھا۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستانی آرمی چیف نے بھارت کو جعفر ایکسپریس پر حملے اور فوجیوں کے قتل عام پر وارننگ دینے کے بعد پہلگام کا حملہ کروایا۔
اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط کہتے ہیں کہ ’یہ ممکن ہے کہ جنرل عاصم منیر اوورسیز پاکستانیوں سے خطاب کے دوران جذبات کی رو میں بہہ گئے ہوں۔ انھوں نے ایسی باتیں کہیں جو نجی ماحول میں تو شاید قابل قبول ہوتیں، لیکن اس عوامی پلیٹ فارم پر، بطور آرمی چیف، وہ واضح طور پر ٹکراؤ پر مبنی لگیں۔ عبدالباسط کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگوں نے اسے طاقت کا مظاہرہ سمجھا۔ یہ ایک ایسا اعلان لگا کہ وہ اب مکمل طور پر کنٹرول میں ہیں، اور یہ کہ پاکستان کی سمت کاتعین ایک بار پھر فوج کے ہاتھ میں ہے۔‘
اس سے پہلے جنرل عاصم منیر نے اس سال کے شروع میں ایک اور تقریر کی تھی جس کی بنیاد پر کچھ لوگوں نے انھیں ان کے پیشرو سے زیادہ سخت مؤقف اختیار کرنے والے جرنیل کے طور پر دیکھا تھا۔ ’یوم یکجہتی کشمیر‘ کے موقع پر مظفرآباد میں تقریر کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے کہا تھا کہ ’پاکستان نے پہلے ہی کشمیر کے لیے تین جنگیں لڑی ہیں، اور اگر مزید دس جنگیں درکار ہوں، تو پاکستان وہ بھی لڑے گا۔‘ مگر ان کی حالیہ تقریر کی ٹائمنگ ایسی تھی کہ پہلگام حملے کے تناظر میں اس نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔
پہلگام حملے کے بعد انڈین حکام نے اس تقریر اور حملے کے درمیان مبینہ تعلق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اگرچہ انڈیا کی جانب سے تاحال پہلگام حملے کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے گئے مگر اس بیان نے دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود بداعتمادی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ دوسری جقنب ملک کے اندر، جنرل عاصم منیر کے اقدامات کو ایک ایسے رہنما کے اقدامات کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو سوچ سمجھ کر قدم اثھانے والا اور سمجھوتہ نہ کرنے والا ہے اور فوجی اختیار کو دوبارہ مستحکم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ 9 مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے ہنگاموں کے نتیجے میں، جنرل عاصم منیر نے سابق وزیراعظم کے حامیوں کے خلاف ایک بڑے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا۔ سویلینز کو فوجی قوانین کے تحت مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، ایک اعلیٰ جنرل کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر مجبور کیا گیا، اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید، جو کبھی عمران کے قریبی سمجھے جاتے تھے، کو گرفتار کیا گیا۔
پاکستان بھارتی حملے کا جواب نیوکلیئر حملے سے بھی دے سکتا ہے
ناقدین نے اسے عمران خان کے وفاداروں کا صفایا قرار دیا، جبکہ حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اُس فوجی نظم و ضبط کو بحال کرنے کی کوشش تھی، جو جنرل باجوہ اور جنرل منیر دونوں کے لیے، عوامی سطح پر بڑھتی تنقید کی وجہ سے متاثر ہو چکا تھا۔ جنرل منیر اپنی پانچ سالہ مدت کے دو سال مکمل کر چکے ہیں، لیکن ان کی میراث کے خدوخال اب واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ انڈیا کے ساتھ موجودہ کشیدگی بڑے فوجی تصادم میں بدلتی ہے یا سفارتکاری کے ذریعے حل ہوتی ہے، اس سے قطع نظر پاکستان کے اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کا تعین اس بنیاد پر ہو گا کہ جنرل عاصم منیر اسے کس سمت لے جاتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر اس بحران سے کس طرح نمٹتے ہیں، یہ اُن کے بطور فوجی، ’پاور بروکر‘ اور پاکستان کے اس خطے میں کردار کے تعین کی وضاحت کرے گا۔ اور فی الحال، یہ فیصلہ بڑی حد تک انھی کے ہاتھ میں ہے۔