کیا عمران نے سول نافرمانی کی کال حکومت سے مذاکرات کے لیے دی؟

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جھنڈی دکھائی جانے کے بعد بانی پی ٹی آئی عمران خان نے ایک بار پھر دوغلی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے جہاں ایک طرف عمران خان سول نافرمانی کی کھوکھلی دھمکی کے ذریعے مقتدر حلقوں کو دباؤ میں لانے کے خواہشمند ہیں وہیں دوسری جانب عمران خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے ہائی پاور کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ بالفاظ دیگر عمران خان نے مقتدر قوتوں کے پاوں بھی پکڑ رکھے ہیں جبکہ وہ عوام کے سامنے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھانے کا ڈھونگ بھی رچا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ پچھلے کچھ دنوں سے سیاسی حلقوں میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے اعلان کا معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ عمران خان حکومت پر دباؤ بڑھانے کا ہر حربہ استعمال کرنا چاہتے ہیں بانی پی ٹی آئی کی خواہش ہے کہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ انھیں دوبارہ گود لینے پر راضی ہو جائے تاہم دوسری جانب سے تاحال کوئی مثبت جواب سامنے نہیں آیا۔
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عمران خان نے ملک میں سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہو۔ 2014 میں اسلام آباد میں 126 دن تک جاری رہنے والے دھرنے کے دوران بھی عمران خان نے یہ اعلان کیا تھا اور کنٹینر پر اپنے بجلی کا بل جلا دیا تھا۔
دنیا کے مختلف ممالک میں ماضی میں سول نافرمانی کی تحاریک چلتی رہی ہیں۔ اسے احتجاج کا ایک پرامن طریقہ سمجھا جاتا ہے جس میں حکومت کو کسی بھی قسم کا بل یا ٹیکس دینے سے انکار کیا جاتا ہے۔ جب کہ ایسی اشیا یا خدمات کا بھی بائیکاٹ کیا جاتا ہے جس سے حکومت کو فائدہ پہنچتا ہو۔
عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان کیوں کیا؟ کیا حکومت پر اس کا کوئی اثر پڑے گا؟ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئےتجزیہ کار اور کالم نویس افتخار احمد کہتے ہیں کہ اِس سوال کا بہتر جواب تو عمران خان خان خود دے سکتے ہیں تاہم بطور تجزیہ کار وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ماضی میں عمران خان کی اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔عمران خان کے جو اہداف ہیں وہ حاصل نہیں ہو پائے ہیں۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اِس تحریک کے ذریعے وہ اپنے اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پہلے تو عمران خان یہ بتائیں کہ اُن کے اہداف ہیں کیا؟ اگر تو اُن کا ہدف یہ دو نکات ہیں جن کا ذکر وہ اپنے پیغام میں کر چکے ہیں تو اِن اہداف کا اظہار تو وہ ماضی میں بھی کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔
کالم نویس اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہجب تک پی ٹی آئی کے مطالبات نہیں مانے جاتے وہ اپنی کوئی نہ کوئی کوشش جاری رکھیں گے۔ اُنہوں نے احتجاج بھی کیے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ سول نافرمانی کی تحریک بھی اِسی سلسلے کی کڑی ہے۔اُنہوں نے مزید کہا کہ مستقبل میں تحریکِ انصاف اسمبلیوں سے استعفوں کا بھی کہہ سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس اب بھی بہت سے آپشنز ہیں۔
تجزیہ کار افتخار احمد کے بقول عمران خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 80 فی صد عوام عمران خان کے ساتھ ہے۔ شاید اُسی کی بنیاد پر عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم حکومت نے بھی اس تحریک کا توڑ کرنے کا مکمل بندوبست کر لیا ہے۔
دہشت گردی کے الزامات پر عمران کو لمبی قید میں ڈالنے کا منصوبہ
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ اگر تحریکِ انصاف سیاسی بات چیت کرنا چاہتی ہے تو حکومت اُس کے لیے تیار ہیں۔ تاکن جو لوگ جیلوں میں ہیں، انہیں رہا عدالتوں نے کرنا ہے۔ انا کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کئے تاہم عمران خان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حکومت سول نافرمانی جیسی دھمکیوں سے کسی دباؤ میں نہیں آئے گی۔
یاد رہے ماضی میں عمران خان متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مذاکرات صرف اُن سے کریں گے جن کے پاس طاقت اور اختیار ہے۔ وہ سیاسی جماعتوں سے کوئی بات نہیں کریں گے۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جھنڈی دکھائی جانے کے بعد اب وہ حکومت سے بھی مذاکرات پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ تاہم حکومت پی ٹی آئی سے مذاکراتی عمل آگے بڑھانے سے گریزاں ہے۔