کیا ٹرین حملے کے بعد  BLA نے فوجی اہلکاروں کو یرغمالی بھی بنایا؟

جعفر ایکسپریس‘ نامی ٹرین پر بلوچستان لبریشن آرمی کے حملے کے بعد مسافروں کی زندہ واپسی اور 33 دہشت گردوں کی ہلاکت کے دعووں کے حوالے سے کنفیوژن پائی جاتی ہے کیونکہ بہت سارے سوالات کے جواب ابھی سامنے نہیں آ سکے۔

وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق فوجی ترجمان اور وزیرِ اعظم دونوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جعفر ایکسپریس ریسکیو آپریشن کے ذریعے 339 مسافروں کو بازیاب کرایا گیا جب کہ اس واقعے میں 21 مسافر اور چار سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے۔ لیکن چونکہ ٹرین میں 400 مسافر سوار تھے لہذا بقیہ 36 مسافروں کا کچھ پتہ نہیں ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کچھ بتایا گیا ہے۔

پاکستان سے فرار ہو کر لندن میں قیام پذیر بھگوڑے میجر ریٹائرڈ عادل راجہ نے ٹویٹر پر دعوی کیا ہے کہ بی ایل اے کے باغیوں نے ٹرین میں سفر کرنے والے تقریباً 100 فوجیوں کی جان لی اور تقریباً 20 نسبتاً اعلیٰ درجے کے فوجی اہلکاروں کو یرغمال بنا کر ریسکیو آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی بلوچستان کی وسعتوں میں غائب ہو گئے۔ موصوف کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر بی ایل اے کے گرفتار شدہ قیدیوں کے تبادلے میں ان فوجی یرغمالیوں کو سودے بازی کے لئے استعمال کیا جائے گا۔

یرغمالیوں کو ساتھ لے جانے کے بعد پیچھے رہ جانے والے مسافروں کی نگرانی کے لیے پانچ خودکش فدائی رہ گئے تھے۔ پاک فوج کے ترجمان کا دعوی ہے کہ آرمی کے سپیشل سروسز گروپ سے تعلق رکھنے والے خصوصی تربیت یافتہ کمانڈوز نے ان خودکش حملہ آوروں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں مسافروں کی رہائی ممکن ہوئی۔ تاہم بی ایل اے کے ترجمان نے سوشل میڈیا پر دعوی کیا ہے کہ کسی ایک بھی سویلین کی جان نہیں لی گئی اور صرف فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسکا کہنا تھا کہ بی ایل اے والوں نے مشن مکمل ہو جانے کے بعد یرغمالیوں کو خود رہا کیا تھا۔

دوسری جانب سکیورٹی ذرائع نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے کہ حملہ آور 20 فوجیوں کو یرغمالی بنا کر ساتھ لے گئے۔ تاہم وائس آف امریکہ کے مطابق تمام ٹرین مسافروں کی بازیابی کے حکومتی اور عسکری دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔ سرکاری دعووں کے برعکس ٹرین میں سوار کئی مسافروں نے بتایا ہے کہ انہیں حملے کے روز سیکیورٹی فورسز نے بازیاب نہیں کرایا اور وہ یا تو خود موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے یا پھر انہیں عسکریت پسندوں نے جانے کی اجازت دی۔ ان افراد میں زیادہ تعداد بچوں، خواتین اور بزرگوں کی بتائی جاتی ہے۔

وائس آف امریکہ نے کئی تجزیہ کاروں سے بات کی جن کے مطابق حکومت نےاب تک اس واقعے کی مکمل تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں جس کی وجہ سے حکومتی دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو پا رہی ہے۔سلمان علی ان سینکڑوں مسافروں میں سے ایک تھے جو 11 مارچ کو کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر سوار تھے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سے ٹرین صبح وقت پر نکلی تھی۔ لیکن تقریباً دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب پانیر ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک دھماکے کے بعد ریل گاڑی نسبتاً سنسان علاقے میں رک گئی۔ سلمان کے مطابق ٹرین رکنے کے بعد اردگرد سے فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔ کچھ دیر میں انہیں ایک درجن کے قریب مسلح افراد قریبی پہاڑوں سے آتے دکھائی دیے۔ اس دوران وہ ٹرین کے اطراف میں مسلسل فائرنگ کررہے تھے جس کے باعث مسافر خوف زدہ ہوگئے اور گولیوں سے بچنے کے لیے نشستوں کے نیچے چھپ گئے۔ ان کے بقول اس دوران ٹرین کا کوئی شیشہ بھی سلامت نہیں بچا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ فائرنگ کے بعد مسلح افراد نے لوگوں کو باہر آنے کو کہا۔ سلمان کے مطابق باہر نہ جانے والوں کو فائرنگ کرکے مار دیا گیا۔ باہر آنے کے بعد خواتین اور بزرگوں کو ایک جانب جانے کو کہا گیا جب کہ دیگر کے شناختی کارڈ چیک کرکے ان کی دو الگ ٹولیاں بنائی گئیں۔ سلمان کے مطابق دہشت گردوں نے فوجی اہلکاروں اور حکومت کے مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والوں کو ایک جانب بٹھا دیا اور دیگر مسافروں کو پورا دن دوسری جانب میدان میں بٹھا کر رکھا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد سندھ، خیبر پختون خوا، بلوچستان اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو شام کے وقت جانے کی اجازت دے دی گئی۔

سلمان نے دعویٰ کیا کہ کئی گھنٹے پیدل چلنے کے بعد انہیں ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن کے قریب فرنٹیئر کانسٹیبلری کی چیک پوسٹ نظر آئی تو انکی جان میں جان آئی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایک اور مسافر جمشید اجمل نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے پنجابی اور سرائیکی قومیت سے تعلق رکھنے والوں کو الگ کھڑا کر دیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہمارے سامنے ٹرین میں سفر کرنے والے فوجی اور پولیس اہلکاروں کو ہاتھ پاؤں باندھ کر گولیاں ماری گئیں۔ انہوں نے رات ایک بجے کے قریب دوبارہ کچھ لوگوں کو نکالا اور انہیں بھی گولیاں مار کر قتل کر دیا۔

جمشید اجمل کے مطابق رات کو اندھیرے میں موقع دیکھتے ہوئے وہ اور کچھ اور لوگ وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے اور کئی گھنٹوں بعد ایک محفوظ مقام پر پہنچے۔ وہاں سے ان مسافروں کو مچھ ریلوے اسٹیشن اور پھر وہاں سے فریٹ ٹرین کے ذریعے کوئٹہ واپس پہنچایا گیا۔ ایک اور مسافر اللہ دتہ نے میڈیا کو بتایا کہ ان سمیت کئی مسافر جن میں سادہ لباس میں غیر مسلح فوجی بھی شامل تھے، وہ ہمت کرکے موقع سے فرار ہوئے۔ ایسے میں کئی افراد گولیاں لگنے سے زخمی بھی ہوئے۔ کچھ اسی طرح کے خیالات دیگر مسافروں کی زبانی بھی سننے کو ملے جن سے مختلف میڈیا ٹیموں نے گفتگو کی۔ بیشتر مسافروں کے انٹرویوز سے پتا چلتا ہے کہ ٹرین پر حملے کے کافی دیر بعد بھی عسکریت پسندوں کا ٹرین اور اس کے مسافروں پر مکمل کنٹرول تھا اور انہوں نے خود خواتین، بچوں اور بزرگ مسافروں کو جانے کی اجازت دی تھی۔

واپس آنے والے مسافروں کی بات چیت سے یہ بھی لگتا ہے کہ حملے کی رات تک فوج یا قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ انہیں ‘بازیاب’ کراتے۔ دوسری جانب حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی میڈیا میں سیکیورٹی ذرائع سے یہ خبریں سامنے آنے لگیں کہ سیکیورٹی فورسز نے بہت سے مسافروں کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔ سیکیورٹی ذرائع سے آنے والی ابتدائی معلومات میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ104 مسافروں کو آپریشن کے ذریعے بازیاب کر الیا گیا ہے جن میں 58 مرد، 31 خواتین اور 15بچے شامل ہیں۔ یہ معلومات پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز اور دیگر ذرائع ابلاغ نے من و عن رپورٹ کیں۔ لیکن کہیں بھی اس آپریشن کی مزید تفصیل بیان نہیں کی گئی۔

ادھر جعفر ایکسپریس حملے کے دوسرے روز ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے نجی نیوز چینل ‘دنیا نیوز’ کو بتایا کہ عسکریت پسندوں نے مسافروں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسافروں کی بازیابی کے لیے آپریشن فوری طور پر شروع کیا گیا تھا جس میں آرمی، ایئر فورس، ایف سی اور فوج کے اسپیشل سروسز گروپ کے جوانوں نے بھی حصہ لیا اور مرحلہ وار یرغمالوں کو بازیاب کرایا گیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فورسز کے ماہر نشانہ بازوں نے پہلے خودکش بمباروں کو ہلاک کیا۔ جس کے بعد یرغمال مسافر وہاں سے بھاگے اور پھر سیکیورٹی فورسز نے مرحلہ وار ہر بوگی کی کلیئرنس کی۔

لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کے بقول کلیئرنس آپریشن میں کسی یرغمال مسافر کو نقصان نہیں پہنچا۔ لیکن عسکریت پسندوں نے اس سے قبل ہی 21 مسافروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ بعد ازاں جمعے کو ایک پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نےجعفر ایکسپریس حملے میں اموات کی تعداد میں اضافے کا بتاتے ہوئے کہاکہ واقعے میں 26 مسافر جاں بحق ہوئے جن میں 18 سیکیورٹی اہلکار تھے۔ لیکن حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی  تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کے ترجمان نے پاک فوج کی جانب سے ریسکیو آپریشن کے ذریعے یرغمالی رہا کروانے کے دعوے کو جھوٹ پر مبنی قرار دیا۔

کیا بلوچستان میں دہشت گردی کا خاتمہ اب آپریشن سے ہی ممکن ہے؟

ترجمان کے مطابق جن مسافروں کو ریسکیو آپریشن میں بازیاب کرانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ بی ایل اے نے اپنی "جنگی اخلاقیات اور اصولوں” کے تحت خود رہا کیے تھے۔ بی ایل اے نے دعویٰ کیا کہ فوج اپنے محصور اہلکاروں کو بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ادھر سوشل میڈیا پر مسلسل اس واقعے سے متعلق سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ریلوے حکام کے دعوے کے مطابق جعفر ایکسپریس میں 400 سے زائد مسافر تھے اور ان میں سے حکومتی دعوے کے مطابق محض 21 اموات ہوئیں تو باقی لوگ کہاں ہیں؟ بی ایل اے نے کتنے مسافروں کو جانے دیا اور کتنوں کو یرغمالی بنایا ؟ کتنے لوگ عسکریت پسندوں کے چنگل سے بھاگ کر مچھ پہنچے؟ اور کتنے آپریشن میں بازیاب ہوئے؟ اسی طرح زخمیوں کی اصل تعداد کے بارے میں بھی آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

Back to top button