کیا سندھ سے نہریں نکالنے کا منصوبہ مریم کی وجہ سے متنازعہ ہوا ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری نے کہا ہے کہ دریائے سندھ کے پانی سے چولستان کے ریگستان کو سرسبز و شاداب کرنے کا "گرین پاکستان انیشی ایٹو” نامی منصوبہ اسی روز متنازعہ ہو گیا تھا جب وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ہمراہ اس کا افتتاح کیا تھا۔ انکا کہنا ہے کہ اس سے پہلے پیپلز پارٹی نے اس منصوبے کی مخالفت نہیں کی تھی بلکہ چپ سادھ رکھی تھی۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں بلال غوری کہتے ہیں کہ  اس برس قائد عوام کی برسی پر انکے عقیدت مندوں نے ’’مرسوں مرسوں، سندھ دا پانی نہ دیسوں‘‘ کا نعرہ لگا دیا ہے۔ اسکی تفصیل کچھ یوں ہے کہ گزشتہ کئی برس سے ’’گرین پاکستان انیشی ایٹو‘‘ کے تحت چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ شروع کی جا رہی ہے۔ اس منصوبے کے تحت دریائے سندھ سے 6 نہریں نکال پنجاب میں چولستان کو پانی فراہم کرنیکا فیصلہ کیا گیا تھا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 176 کلومیٹر طویل محفوظ شہید کینال سلیمانی ہیڈ ورکس کے مقام پر دریائے ستلج سے نکالی جائیگی، یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہر سال جون تا اکتوبر اس نہر کا سیلابی پانی استعمال کیا جائیگا۔ اسکے علاوہ باقی پنجاب کے حصے کا پانی بھی چولستان کو سر سبز و شاداب بنانے کے لیے استعمال ہو گا۔ مجموعی طور پر محفوظ شہید کینال میں 4120 کیوسک پانی آئیگا جس سے 1.2ملین ایکڑ رقبہ قابل کاشت بنایا جائیگا۔

لیکن سندھ بھر میں اس حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ اس نہر کے لیے سارا پانی دریائے سندھ سے لیا جائے گا۔ یوں نئی نہریں نکالنے سے وہاں کی زمینوں کو پانی میسر نہیں آسکے گا اور سندھ کے قابل کاشت رقبے بنجر ہو جائیں گے۔ بلال غوری کے مطابق دریائے سندھ سے نئی نہریں نکال کر چولستان کو سیراب کرنے کے منصوبے پر سندھی قوم پرستوں کے اعتراضات سے یوں لگتا ہے جیسے زرعی انقلاب کا سبز باغ بھی کالا باغ ڈیم کی طرح متنازع ہونے جا رہا ہے۔ تکنیکی نوعیت کے معاملات پر تو کسی آبی ماہر کی رائے ہی معتبر ہوسکتی ہے لیکن بطور صحافی میں یہ بات واضح طور پر محسوس کررہا ہوں کہ اس منصوبے پر سیاست ہو رہی ہے۔ دراصل گرین پاکستان انیشی ایٹو منصوبہ 2023 میں شروع ہوا تھا۔ جنوری 2024 میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی یعنی ارسا نے اس منصوبے کے تحت نئی نہریں نکالنے کی منظوری دی جسکے بعد سندھ میں قوم پرستوں کے احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لیکن اسے ذیادہ پذیرائی نہ مل سکی کیو کہ پیپلز پارٹی کے رہنما اچھے بچوں کی طرح چپ چاپ کونے میں بیٹھ کر دہی کھاتے رہے۔ راوی چین ہی چین لکھتا رہا۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ اس کے بعد فروری 2025 میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ہمراہ چولستان میں اس منصوبے کا افتتاح کیا تو سیاست کے ایوانوں میں بھونچال آ گیا۔ 10 مارچ 2025 کو صدر آصف زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی اکائیوں کی مخالفت کے باوجود حکومت کا دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کافیصلہ یک طرفہ ہے اور میں بطور صدر اسکی حمایت نہیں کرسکتا۔ اسکے چند روز بعد وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نہریں نکالنے کے منصوبے کیخلاف سندھ اسمبلی میں قرارداد پیش کردی اور یوں اس معاملے کو اچانک قومی مسئلے کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ کہا جانے لگا کہ جس طرح پیپلزپارٹی نے کالا باغ ڈیم منصوبے کو دفن کردیا تھا اسی طرح اس منصوبے کو بھی کوڑا دان میں پھینک دیا جائیگا۔ اس معاملے پر سندھ بھر میں قوم پرستوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یوں بتدریج سیاسی پارہ چڑھتا چلا گیا۔ 4 اپریل 2025 کو بلاول بھٹو نے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ منصوبہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے دیا۔ انکا کہنا تھا کہ اگر عوام کہیں گے کہ نہریں نامنظور ہیں تو پیپلز پارٹی عوام کیساتھ کھڑی ہوگی، شہباز شریف کیساتھ نہیں۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ بعض ناقدین کے مطابق بلاول بھٹو نے اسکے باوجود کوئی واضح ڈیڈلائن یا الٹی میٹم نہیں دیا۔ دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف نے بھی سب سے بڑی اتحادی جماعت کی تنقید کا جواب نہیں دیا۔ وہ موجودہ صورتحال پر مضطرب دکھائی نہیں دیتے۔ شہبازشریف کے اعتماد کا سبب شاید انکا یہ یقین ہے کہ زرعی انقلاب کا منصوبہ اور اسکی کامیابی کیلئے نہریں نکالنے کا فیصلہ جن طاقتوروں نے کیا ہے، انکی اجازت کے بغیر پیپلز پارٹی موجودہ نظام کو غیر مستحکم کرنے کی غلطی نہیں کرسکتی۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی مارچ 2025 تک اس حوالے سے خاموش کیوں تھی اور اب اچانک نئی نہروں کیخلاف احتجاجی مہم میں شامل کیوں ہو گئی؟ اس وقت دو صوبوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، صدر، چیئرمین سینیٹ، اور دو گورنرز بھی پیپلز پارٹی کے لگائے گئے ہیں، لہٰذا کیا ایسے میں بھٹو کی پارٹی کسی محرومی کا گلہ شکوہ ہے کر سکتی ہے؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ نبض شناسی کے پیش نظر عوام کے جذبات و احساسات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مقبول بیانیہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہو؟ پیپلز پارٹی کو یہ احساس ہوا ہو کہ قوم پرست جماعتیں اس سیاسی نعرے پر سبقت لے جاتی نظر آرہی ہیں اور اگر فوری طور پر احتجاج کی ٹرین میں سوار ہوکر ڈرائیونگ سیٹ نہ سنبھالی گئی تو بہت دیر ہو جائیگی؟ بظاہر یوں لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دھمکی آمیز بیانات اور اشتعال انگیز تقریروں سے فاصلوں کی عکاسی نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی قربتوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو جب میاں ثاقب نثار چیف جسٹس ہوا کرتے تھے تو نظام کیخلاف اُٹھنے والی آوازوں پر ازخود نوٹس لے لیا کرتے تھے مگر بعد ازاں معلوم ہوتا کہ اس اقدام کا مقصد انصاف فراہم کرنا نہیں بلکہ معاملے کو محفوظ ہاتھوں میں لیکر سہولت کاری کرنا ہے۔

پاکستان توڑنے والے حکمران تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھنا چاہتے ؟

بلال غوری کہتے ہیں کہ جب گرد بیٹھے گی تو صورتحال واضح ہوہی جائیگی، ممکن ہے احتجاج کے باوجود نہریں نکالنے کا منصوبہ مکمل ہو جائے اور پیپلز پارٹی بیک وقت عوام اور شہبازشریف دونوں کیساتھ کھڑی رہے۔ لیکن آبی ماہرین کے مطابق چولستان کے صحرا میں کارپوریٹ فارمنگ کے خواب کو حقیقت میں بدلنا بہت مشکل ہے۔ وہاں آب پاشی کا جو بھی جدید طریقہ بروئے کار لایا جائیگا، گرد آلود نہری پانی کے سبب ناکام ہو جائیگا۔ ہمارے ہاں تو محض چند نہریں نکال کر صحرا کو گلزار بنانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ہمسایہ ملک بھارت تین دریاؤں یعنی راوی، ستلج اور بیاس کا رُخ راجستھان کی طرف موڑنے کا باوجود وہاں سبز انقلاب نہیں لا سکا۔ ایسے میں زرعی انقلاب کے سبز باغ پر مزید سنجیدہ فکر و تدبر کے بعد موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

Back to top button