کیا امریکہ پاکستان پر پابندیوں لگا کر عمران کو رہا کروانا چاہتا ہے ؟

عسکری حلقوں کا کہنا ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر رچرڈ گرینل کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے مطالبے کے بعد پاکستانی بیلسٹک میزائل پروگرام پر پابندیوں کا نفاذ اسلام آباد کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہے۔ تاہم پاکستان ایسا کوئی دباؤ قبول نہیں کرے گا۔

انھی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے چئیرمیں پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے نواب شاہ میں بی بی شہید کی برسی کے موقع پر اپنے خطاب کے دوران کہا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی طاقت نہ ہو اور وہ کسی نہ کسی بہانے سے پاکستان سے یہ طاقت چھیننا چاہتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ عمران خان صرف ایک بہانہ ہے اور اصل میں پاکستان کا میزائل پروگرام امریکہ کا نشانہ ہے۔ بلاول بھٹو نے امریکا کی جانب سے پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی پر پابندیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مختلف ممالک ہماری اندرونی سیاست بارے بیان دے رہے ہیں لیکن یہ سب کچھ بہانہ ہے اور ان میں سے کسی کو پاکستانی جمہوریت کے بارے میں کوئی فکر نہیں ہے۔

دوسری جانب سیاسی مبصرین کا بھی یہی ماننا ہے کہ امریکی مشیر کیطرف سے عمران کی رہائی کے مطالبے کے فوری بعد پاکستان کے ایٹمی پروگرام بارے تحفظات کا اظہار کوئی عمومی صورتحال نہیں ۔ انکا کہنا ہے کہ یہ واقعات اور مطالبات ایک مربوط امریکی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں جنکا واحد مقصد یہی دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان کو بدامنی اور انتشار کا حامل ملک قرار دے کر اس کے ایٹمی پروگرام پر پابندیاں لگائی جا سکیں۔

اسی حوالے سے سینئر صحافی اور تجزیہ کار مزمل سہروردی کا کہنا ہے کہ ایک طرف پاکستان میں تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں دوسری طرف رچرڈ گرنیل نے بھی بانی تحریک انصاف کی رہائی کے لیے اپنی مہم تیز کر دی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس وقت حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کی کامیابی کے امکانات معدوم ہیں کیونکہ تحریک انصاف ٹرمپ کے آنے کا انتظار کر رہی ہے۔ اس لیے درمیانی وقت میں مذاکرات کا کھیل شروع کیا گیا ہے۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد ملک کے حالات دوبارہ خراب کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لاشوں کی سیاست دوبارہ شروع کی جائے گی تاکہ ٹرمپ انتظامیہ کو مداخلت کا موقع مل سکے۔ اس لیے ٹرمپ کے آنے کا انتظار ہے۔ اس کے بعد یہ مذاکرات اور یہ ماحول سب ختم ہو جائے گا اور دوبارہ محاذ آرائی شروع ہو جائے گی۔

یاد رہے کہ ٹرمپ کے مشیر رچرڈ گرینل نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام بارے تحفظات کا اظہار کیا ہے جس  سے لگتا ہے کہ پاکستانی میزائیل پروگرام میں تعاون کرنیوالی چار کمپنیوں پر پابندی کے بعد پاکستان کے میزائل پروگرام پر ٹرمپ انتظامیہ میں مزید سختیاں آئیں گی۔ جس کے لیے شاید اب ریاست پاکستان تیار بھی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کے میزائل پروگرام میں تعاون پر جن کمپنیوں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں اس کی بانی تحریک انصاف نے ابھی تک مذمت نہیں کی ہے۔ تحریک انصاف نے ان پابندیوں پر ایک خاموشی رکھی گئی ہے۔ ساتھ ساتھ تحریک انصاف نے اپنے تمام لیڈران پر خارجہ امورپر بات کرنے کی پابندی لگا دی ہے تاکہ کوئی اور مذمت نہ کر دے۔

بی بی کے قتل سے شروع ہونے والا پراجیکٹ عمران خاتمے کی جانب گامزن

ایسے میں اطلاعات یہی ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے خود امریکی اقدامات کی مذمت نہ کرنے کے احکامات جاری کر رکھے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکا کو ناراض نہ کرنے کے احکامات اڈیالہ جیل سے دیے گئے ہیں۔ مزمل سہروردی کے مطابق ریاست پاکستان کو علم ہے کہ پاکستان کے میزائل پروگرام پر جو پابندیاں لگ رہی ہیں وہ بانی تحریک انصاف کو اقتدار میں لا کر بھی ختم نہیں ہونگی۔ امریکہ کو اپنے اقتدار کے خاتمے کی وجہ قرار دینے والے عمران خان اس وقت امریکا کے اس قدر ممنون ہو چکے ہیں کہ وہ ان پابندیوں کی مذمت کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تو اقتدار میں آ کر تو وہ امریکا کی خوشنودی کے لیے تمام حدیں پار کر جائیں گے۔ اس لیے ریاست اب بانی تحریک انصاف کو مسائل کے حل کے طور پر نہیں بلکہ انھیں مسائل کی بنیاد کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ چنانچہ اگر ٹرمپ انتظامیہ نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان پر عمران کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا تو اس کے نتیجے میں بانی پی ٹی ائی کے لیے آسانیاں پیدا ہونے کی بجائے سختیاں مزید بڑھ جائیں گی۔

Back to top button