کیا عمران سول نافرمانی کی کال سے مارشل لا لگوانے چاہتے ہیں ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ اسلام آباد احتجاج کی ناکامی کے بعد عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان پہلے سے بھی بڑی غلطی ہے کیونکہ اس کی بھی کامیابی کا کوئی امکان نہیں جس سے ان کی جماعت کو مزید نقصان ہوگا۔ لیکن اس کا ایک نتیجہ مارشل لا کی صورت میں ضرور نکل سکتا ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ یاد دلاتے ہیں کہ اس خطے میں تو مہاتما گاندھی جیسا بڑا لیڈر بھی سول نافرمانی کی کال دینے کے بعد اپنی تحریک کامیاب بنانے میں بری طرح ناکام رہا تھا، لہٰذا عمران خان کیسے کامیاب ہو پائے گا؟ انکا کہنا ہے کہ پاکستان میں قومی اتحاد کی تحریک چلی، پیپلزپارٹی نے کئی سال احتجاج کیا۔ نون بھی سڑکوں پر رہی۔ لیکن نہ تو بھٹو شہید، نہ مفتی محمود، نہ اصغر خان، نہ بے نظیر بھٹو اور نہ ہی نواز شریف نےکبھی سول نافرمانی کی کال دی۔ قومی اتحاد کی تحریک کے دوران بھی سول نافرمانی کی بات نہیں ہوئی۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ محمد علی جناح نے بھی تحریک پاکستان کے دوران کبھی اس حد تک جانے کا نہیں سوچا۔ انکے مطابق عمران خان پہلے بھی 2914 میں ایک بار یہی کوشش کر چکے لیکن کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ سول نافرمانی کا مطلب ہے حکومت اور ریاست سے عوام کا تعلق ختم کرنا یعنی عوام بجلی، پانی اور گیس کے بل دینے سے انکار کر دیں، پولیس سے امن و امان کے حوالے سے تعاون نہ کریں، ریاست کے تمام اداروں کا بائیکاٹ کر دیں، فرض کریں کہ یہ تحریک کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو کیا ہو گا؟ ریاستی اور حکومتی مشینری تباہ ہو جائے گی اور فرض کریں واقعی ایسا ہو جائے تو کیا ہوتا ہے؟ آخر میں مارشل لا آ جاتاہے۔ گویا سول نافرمانی کی تحریک ملک میں مارشل لا لگوانے کی مایوس کن کوشش ہے۔
سینیئر صحافی سوال کرتے ہیں کہ آخر عمران خان ایسا کیوں کر رہا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت سے انکار احمقانہ بات ہو گی مگر ان کے جارحانہ اقدامات کی وجہ سے انکی قبولیت کا امکان ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے ریاست اور خان کی آپس کی جنگ اب امید اور ناامیدی کی جنگ میں ڈھل چکی ہے۔ خان عدم استحکام، جلسے، جلوسوں، احتجاجی کالوں، توڑ پھوڑ اور کشت و خون سے جڑتا جا رہا ہے جبکہ شہباز حکومت اور فوجی قیادت امید، استحکام، معاشی ترقی، امن و امان اور بہتری کے ساتھ وابستہ ہو رہی یے۔
سہیل وڑائج کے مطابق پہلے یہی ترتیب الٹ ہوتی تھی۔ جمہوری لوگ اور رہنما معاشی ترقی کی بات کرتے تھے اور ہماری ماضی کی فوج انکے راستے میں روڑے اٹکاتی تھی۔ اگر عمران کی یہی حکمت عملی جاری رہی تو جمہوریت جاتی رہے گی، مارشل لا لگا تو ظاہر ہے کہ مارشل لا لگانے والے تو ذمہ دار ہوں گے ہی، کیا مارشل لا لگوانے والا خان ذمہ دار نہیں ہو گا؟ ان کا کہنا ہے کہ مجھے عمران سے ہمدردی ہے اور اسی لیے مجھے انکی غلط کی سیاسی حکمت عملی سے شدید اختلاف ہے افسوس یہ ہے کہ بار بار کی یہ غلطیاں پاکستان پر بھاری پڑ رہی ہیں، سیاسی جماعتیں غیر متعلق ہوتی جا رہی ہیں اور فوج مزید طاقت ور ہو تی جا رہی ہے۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ایک طرف سول نافرمانی کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور دوسری طرف ریاست آئی ایم ایف کی پابندیاں کمزور ہوتے ہی کنسٹرکشن انڈسٹری کا بہت بڑا پیکیج لانے والی ہے جس سے منجمد معیشت میں یک لخت تیزی آ جائے گی۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے پراپرٹی ٹائیکون کے ساتھ معاملات طے پا چکے ہیں اور ایک دو ماہ کے اندر اس کی واپسی ہو جائے گی اور یوں ریاست کا سارے کا سارا فوکس معیشت اور خوشحالی پر ہوگا۔
ٹی ٹی پی وفاق اور KP حکومتوں کی لڑائی کا فائدہ کیسے اٹھا رہی ہے؟
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ عمران خان کی غلط پالیسیاں ان کی جماعت کو مضبوط نہیں بلکہ کمزور کر رہی ہیں۔ عمران نہ تو کسی دوسری سیاسی جماعت سے ملنے کو تیار ہیں، اور نہ ہی سویلین حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ اکیلے رہ کر سیاسی لڑائی نہیں بلکہ ذاتی لڑائی لڑی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کی دو سال کی سیاست صرف اور صرف فوج کو مضبوط کر رہی ہے۔ خان کے ساتھی جمہوریت پسندوں کا مذاق اڑا کر، دوسری پارٹیوں کی تضحیک کر کے اور اپنے مخالفین کو گالیاں دے کر ان سب کو فوج کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اگر آپ اپنے دروازے بند رکھیں گے، تنقید پردُشنام طرازی کریں گے، کسی کی عزت کرنے کی بجائے اسے اچھالیں گے تو ہر کوئی آپ سے دبنے والا نہیں، لوگ کمزور ہوتے ہیں، ڈرپوک ہوتے ہیں لیکن جب معاملات حد سے گزر جائیں تو وہ کھڑے بھی ہو جاتے ہیں، وہ آپ کے حامی جنرل سے آپ کے مخالف جنر ل عاصم منیر بھی بن جاتے ہیں، اسی طرح جمہوریت پسند جج آپ کی طرف سے ریفرنس لانے پر قاضی فائز عیسیٰ بن جاتے ہیں۔ خوامخواہ کی لڑائیاں، مسلسل غلطیاں آپ کو تو نقصان پہنچا ہی رہی ہیں لیکن ریاست کو بھی لے دے جا رہی ہیں!!۔