کیا فوجی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ سے ورکنگ ریلیشن شپ بنانا چاہتی ہے؟

وزیر داخلہ محسن نقوی کے بعد سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی امریکہ کا دورہ کر ڈالا ہے جس کے دوران انہوں نے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ناشتے میں شرکت کی ہے۔ بلاول کی ٹرمپ سے ملاقات تو نہیں ہو پائی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ امریکہ کے ساتھ گہری دوستی کا رشتہ استوار نہ بھی ہو سکے تو بھی اسکے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ لازمی بہتر بنانا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے واشنگٹن میں ’نیشنل پریئر بریک فاسٹ‘ national prayer breakfast کی اختتامی تقریب سے خطاب کیا جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی شرکت کی۔

واشنگٹن کی 70 سال پرانی اس سالانہ تقریب سے خطاب میں جہاں ٹرمپ نے امریکہ میں مسیحیت مخالف تعصب کے خاتمے کے لیے ٹاسک فورس بنانے کا اعلان کیا وہیں بلاول نے اپنی تقریر میں مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کیے جانے کی مذمت کی۔ بلاول بھٹو وزیر داخلہ محسن نقوی کے بعد وہ پہلے پاکستانی رہنما ہیں جنھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے صدارتی دور کے دوران واشنگٹن میں کانگریس کے ارکان اور دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔ بلاول سے قبل محسن نقوی ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کے موقع پر واشنگٹن گئے تھے جہاں انھوں نے مختلف تقاریب میں شرکت کی تھی۔

بلاول بھٹو نے اپنی ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر اس موقع پر لی گئی چند تصاویر اور اپنی تقریر کی ویڈیو شیئر کی ہے۔ بلاول نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا ہے کہ ’میں دباؤ میں تھا کہ مجھے نیشنل پریئر بریک فاسٹ کی اختتامی تقریب پر خطاب کرنا ہے۔ جب میں شرکا میں بیٹھا تھا تو میں نے سوچا کہ میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بہتر کیسے بول سکوں گا، جنھوں نے ہمیں آج یہاں سرپرائز کیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ اپنی والدہ اور اس فورم کی دوست بینظیر بھٹو سے بھی بہتر نہیں بول سکیں گے۔ خیال رہے کہ بینظیر بھٹو نیشنل پریئر بریک فاسٹ کی سالانہ تقریب سے اکثر خطاب کیا کرتی تھیں۔ بلاول نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ اُن کی والدہ نے ’اس سب کا خلاصہ کر دیا تھا جو میں نے بولنا تھا۔‘

اپنی تقریر کے دوران بلاول نے مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے موضوع پر بات کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کو ایک فوجی آمر نے پھانسی دی جبکہ ان کی والدہ بینظیر بھٹو کا انتخابی مہم کے دوران قتل کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اُن کی والدہ نے فروری 2008 میں اس فورم سے خطاب کرنا تھا تاہم ان کی وفات کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماں کو کھونے جیسے صدمے آپ کو مذہب کے قریب لاتے ہیں۔ بلاول نے کہا کہ مذہب کے ذریعے ’ہمیں تقسیم کیا جاتا ہے۔۔۔ لیکن یہ ایک ایسی قوت ہے جو ہمیں تقسیم نہیں بلکہ متحد کرتی ہے۔‘

جب صحافیوں نے بلاول سے پوچھا کہ آیا اُن کی ٹرمپ یا ان کے قریبی حلقوں میں کسی سے ملاقات ہوئی ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ’میں اب پاکستان کا وزیر خارجہ نہیں رہا ہوں۔ میری یہاں کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں مگر وہ آفیشل حیثیت میں نہیں بلکہ ذاتی حیثیت میں ہوئی ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ امریکہ کے سابق اور موجودہ ارکان پارلیمان اس تقریب کی ایسوسی ایشن سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ کافی عرصے سے ان افراد کو جانتے ہیں۔ بلاول نے کہا کہ ان کا موجودہ دورہ امریکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق نہیں ہے۔

عمراندار ججز آپس میں ہی لڑ پڑے، ایک جج کے چیف جسٹس پر الزامات

چیئرمین پیپلز پارٹی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان امریکی سرمایہ کاروں اور امریکہ میں موجود پاکستانیوں کے ساتھ مل کر مزید کام کر سکتا ہے اور انھیں امید ہے کہ مستقبل میں اِن لوگوں سے براہ راست بات چیت بڑھے گی۔ بلاول بھٹو کی امریکہ میں موجودگی پاکستان میں توجہ حاصل کر رہے ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں وزیر اطلاعات رہنے والے فواد چوہدری نے بلاول پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’صدر ٹرمپ کا 73ویں نیشنل بریک فاسٹ سے خطاب ختم ہوا ہے۔ شاید ہی کسی اور ملک کے سابق وزیر خارجہ نے اس طرح ٹکٹ لے کر خطاب سُنا ہو جس طرح بلاول بھٹو صاحب نے سُنا ہے۔‘

ایک صارف آفتاب گورایہ نے فواد کو جواب دیا کہ ’مسٹر فواد ٹکٹ خرید کر شرکت کرنے والوں کو نہ تقریب سے خطاب کی دعوت دی جاتی ہے نہ فرنٹ ٹیبل پر بٹھایا جاتا ہے۔‘ انھوں نے بلاول کے دفاع میں کہا کہ انھوں نے ’بہترین سفارتکاری کرتے ہوئے پاکستان کی نمائندگی کی۔‘ سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر بھی گردش کر رہی ہیں جن میں بلاول اس تقریب کے شرکا میں شامل ہیں جبکہ ٹرمپ خطاب کر رہے ہیں۔

اس سے قبل پاکستانی وزیر خارجہ محسن نقوی بھی اس وقت تنقید کی زد میں آئے تھے جب وہ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کے لیے امریکہ گئے تھے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ محسن نقوی کے دورہ امریکہ کے دوران یا اس کے بعد بھی ٹرمپ نے یوتھیوں کے مطالبے اور ان کی امیدوں کے برعکس عمران خان کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا۔

Back to top button