پنجاب میں چھاپوں کے بعد ڈالر سستا ہونے کی بجائے غائب ہو گیا

ڈالر کو کنٹرول کرنے کے حکومتی دعوے ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ ڈالر کی اڑان کو قابو کرنے کیلئے ریاستی اداروں کی کارروائیوں کے بعد ڈالر کی قیمت کم ہونے کی بجائے مارکیٹ سے ڈالر ہی غائب ہو گیا۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قلت اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ پنجاب کے کئی شہروں میں خریداروں کو گھنٹوں انتظار کے بعد بھی مطلوبہ کرنسی نہیں مل رہی۔ منی ایکسچینجز پر ڈالر نایاب خزانے کی طرح غائب ہیں، اور خریدار خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور ہیں بعض منی ایکسچینج سینٹرز نے تو کھلے عام “ڈالر دستیاب نہیں ہیں” کے بورڈ آویزاں کر دئیے ہیں۔ اس صورتِ حال سے نہ صرف کاروباری طبقہ پریشان ہے بلکہ عام شہری بھی چھوٹی بڑی درآمدات یا غیر ملکی تعلیمی فیسوں کے لیے درکار ڈالر حاصل کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔معاشی ماہرین کے مطابق مارکیٹس میں ڈالر کی قلت صرف معاشی ناکامی نہیں بلکہ اس نظام کی کمزوری کا کھلا اعتراف ہے، جہاں پالیسی سازوں کی بے بسی اور مارکیٹ مافیا کی مرضی، عوام کی جیب اور ملکی معیشت دونوں پر بھاری پڑ رہی ہے۔

خیال رہے کہ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈالر کی اسمگلنگ روکنے، غیر ضروری درآمدات محدود کرنے اور ایکسچینج کمپنیوں پر کڑی نظر رکھنے سے کرنسی کی قیمت مستحکم ہو جائے گی۔ مگر عملی طور پر یہ اقدامات خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکے بلکہ مارکیٹ میں دالر کی قیمت کم ہونے کی بجائے ڈالر کی ہی قلت پیدا ہو گئی۔ بینکوں اور اوپن مارکیٹ کے ریٹ میں موجودہ فرق اس بات کا ثبوت ہے کہ مارکیٹ میں طلب اور رسد کا توازن مکمل طور پر بگڑ چکا ہے۔

تاہم ترجمان سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ’ملک میں ڈالر کی کسی قسم کی کوئی قلت ہے نہ ہی کوئی ایسی شکایت موصول ہوئی ہے۔ اگر کسی کو دقت کا سامنا ہے تو وہ اپنی شکایت درج کروا سکتا ہے۔ مارکیٹ پوری طرح مستحکم ہے اور لین دین پر کسی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑا۔ حکومت کے پاس ڈالر وافر موجود ہیں۔‘

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں ایکسچینج کمپنیوں کے عہدیداروں کی اعلیٰ فوجی حکام سے ملاقاتیں بھی رپورٹ ہوئی ہیں۔ جس کے بعد منی مارکیٹس میں چھاپوں کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا ۔

کرنسی ڈیلرز کے مطابق بڑی غیر ملکی کرنسیاں بشمول امریکی ڈالر، برطانوی پاؤنڈ اور یورو مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں، کچھ کمپنیوں سے چند سو ڈالر مل رہے ہیں، لیکن زیادہ تر ڈیلرز ڈالرز کی شدید قلت کا شکار ہیں۔اگرچہ پاکستان فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان سٹیٹ بنک کی طرح کرنسی کی قلت کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے طلب پوری کرنے کی تیاری کا دعویٰ کرتے ہیں تاہم زیادہ تر ڈیلرز ان سے اتفاق نہیں کرتے، کئی افراد کودعویٰ ہے کہ مسلسل چھاپوں کے بعد ملک میں ڈالرز کی ایک غیر قانونی متوازی مارکیٹ دوبارہ سرگرم ہو گئی ہے جہاں ڈالر ایکسچینج کمپنیز کے نرخوں سے زیادہ پر فروخت ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے عام مارکیٹس میں ڈالرز کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ پنجاب میں ڈالرز کی قلت بارے لاہور کی ایک ایکسچینج کمپنی کے عہدیدار محمد جاویدنے بتایا کہ ’اصل میں پچھلے کچھ عرصے میں سٹیٹ بنک نے مارکیٹ سے بہت ڈالر اٹھایا ہے۔ جس کی وجہ سے ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ اور درآمد کنندگان نے بھی ڈالر مختلف ریٹس پر اٹھایا ہے۔ اب جس نے 290 کا خریدا ہے وہ کیسے 285 کا بیچ دے۔ یہی وجہ ہے کہ طلب اوررسد میں فرق آنے سے کچھ شہروں میں ڈالر کی قلت پیدا ہو گئی ہے کیونکہ وہاں ڈیمانڈ زیادہ ہے اور سپلائی کم ہے۔‘

5 اگست کی ناکامی کے بعد 14 کو احتجاج کا فیصلہ کیوں ہوا؟

یاد رہے کہ پاکستان میں ڈالر کے نرخ کنٹرول کرنے اور اس کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے حکومتی اقدامات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کریک ڈاؤن جاری ہے، مگر اس کے باوجود اوپن مارکیٹ میں غیر ملکی کرنسی کی قلت اور قیمتوں میں عدم استحکام برقرار ہے۔ خاص طور پر پنجاب کے بڑے شہروں، جیسے لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں ڈالر کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں شہریوں کو اوپن مارکیٹ سے ڈالر کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ناقدین کے مطابق ڈالر کی قلت اور روپے کی مسلسل گراوٹ سے درآمدی اشیا مہنگی ہو رہی ہیں، جس کا براہِ راست اثر مہنگائی کی نئی لہر کی صورت میں عوام پر پڑ رہا ہے۔ تیل، گیس، ادویات اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ پہلے ہی متوسط اور غریب طبقے کو کمر توڑ مہنگائی کی طرف دھکیل چکا ہے۔ اگر یہی رجحان برقرار رہا تو آنے والے مہینوں میں افراطِ زر کی شرح مزید بڑھنے کا خدشہ موجود ہے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!