ڈمپر حادثات، وجوہات اور حل

تحریر : مظہر عباس

بشکریہ: روزنامہ جنگ

کراچی اب کسی اور ’’بشریٰ زیدی‘ کا متحمل نہیں ہوسکتا جب ایک حادثےنےکئی سانحات کو جنم دیا اور یہ شہر تین دہائیوں تک خون میں نہلایا گیا۔ یہ بھی اِس ’معاشی حب‘ کی بدقسمتی ہے کہ پورٹ اور سمندر ہونے کے باوجود جب بھی رہا’ منفی خبروں‘ کی ہی زد میں رہا ۔نہ وفاق کی دلچسپی ہے اس شہر سے نہ صوبے کی اور نہ ہی خود یہاں کے رہنے والوں کی۔ بہت سادہ ساسوال ہے کہ اگر اسلام آباد میں انڈر پاس چھ ماہ میں شاندارطریقے سے بن سکتا ہے تو کراچی میں ایک سڑک پانچ سال میں بھی کیوں نہیں بن سکتی۔ کراچی میں خوفناک حد تک بڑھتے ہوئے حادثات خاص طور پر ڈمپر اور واٹر ٹینکر کے ہاتھوں، کی بڑی وجہ نہ صرف گاڑیوں کا ان فٹ ہونا ہے بلکہ مبینہ طور پر اچھی خاصی تعداد میں ڈرائیوروں میں منشیات استعمال کرنے کا رجحان خاص طور پر وہ جولانگ روٹس سے شہر میں داخل ہوتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو اِن کے میڈیکل ٹیسٹ کروالیں۔

مگر اِن سارے معاملات کا تعلق ایک انتہائی ناقص ٹرانسپورٹ کےنظام سے ہے جسے بہتر بنانے کے بجائے مزید خراب کردیا گیا ہے قوانین جتنے بھی بنالیں مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ اُس پر عمل درآمد کروانے والوں میں پیسے لے کر جانے دینے کا رجحان زیادہ ہے۔ آئیں سب سے پہلے شہر کی ٹرانسپورٹ پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ حادثات میں اتنا اضافہ کیسے ہوگیا۔ آخر ٹرالر ، کنٹینر میں اضافے کی وجہ کیا ہے۔ کراچی ایک پورٹ سٹی ہے ایک وقت تھا جب سامان پورٹ سے بذریعہ کار گو ٹرین جاتا تھا۔آج بھی ریل ٹریک ، پورٹ کے نزدیک موجود ہے تو آخر یہ سروس کیوں اور کس کے کہنے پر بند کی گئی؟ اس سے ریلوے کو بھی بے انتہا مالی فائدہ ہوتا تھا۔ اس شہر کے پُل ، فلائی اوور، انڈر پاس اور نہ ہی سڑکیں ان کنٹینر ،ٹرالرز یا ڈمپر کیلئے بنائی گئی تھیں ،اسلئے سڑک بھی ٹوٹتی ہے اور حادثات بھی ہوتے ہیں۔ ریلوے کارگو کا نظام فوری طور پر بحال کیا جائے ورنہ یہ ہیوی ٹریفک دن میں چلے یا رات کو سانحات کو جنم دیتی رہے گی۔ جتنا پیسہ کراچی ماس ٹرانزٹ یا سرکلر ریلوے کی بحالی کی فائلوں میں کمایا گیا ہے اس سے آدھی قیمت میں یہ دونوں سسٹم اب تک پایہ تکمیل تک پہنچ گئے ہوتے۔ اب نئی بسیں لائی جارہی ہیں جو اچھا اقدام ہے مگر کن سڑکوں پر؟ 85 فیصد شہر کی سڑکیں یا تو کھدی پڑی ہیں یا زیرِ تعمیر کے بورڈ لگےہیں کہیں ایک سال کہیں دو سال اور کہیں تو چار ، پانچ سال ہوگئے ہیں، دوسرا شہر سے دور سُپر ہائی وے پر ایک ’سٹی ‘ کیا بنائی جارہی ہے کہ شہر کے مختلف علاقے سے وہاں آسانی سے پہنچنے کیلئے سڑکیں تیار ہورہی ہیں ، کاش ایسی ہی توجہ شہر کے اندر کی سڑکوں پر بھی دی جائے۔ خراب سڑکیں حادثات کا باعث بنتی ہیں ، کہیں مین ہول کُھلے ہوتے ہیں ، کہیں واٹربورڈ نے تو کہیں سوئی سدرن گیس والوں نے سڑک کھودی ہوتی ہے۔ ورنہ اِس شہر کی بیشتر سڑکیں آج بھی انتہائی کشادہ ہیں، اب بھی لیاقت آباد یا ناظم آباد جاکر دیکھ لیں مگر جب ان سڑکوں پر تجاوزات کی بھر مار ہوگی، سروس روڈ دکان داروں اور ہوٹل والوں کے حوالے کردی جائے گی ٹریفک کا سارا زور اور دباؤ آنا ہی ہے اور اُس پر تیز رفتار بسیں ، منی بسیں اور پھر ٹینکر ، ڈمپر سےکبھی گاڑیاں ہٹ ہوتی ہیں مگر اکثر موٹر سائیکل ۔ جو سب سے آسان ہدف بھی ہوتا ہے اور بعض واقعات میں خود اُن کی لاپروائی بھی کہ سگنل توڑنا، رانگ سائیڈ جانا اور ہیلمٹ سر کے بجائے گود میں ہونا اِن کی عادت سی بنتی جارہی ہے۔ رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کردی۔ اکثر گردن سے موبائل لگائے بات کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ اب اگر موٹر سائیکل پر خواتین، بچے بھی ہوں تو حادثہ سانحہ بن جاتا ہے۔

بڑھتے ہوئے وی آئی پی کلچر نے بھی پروٹوکول اور سیکورٹی کے نام پر شہر کے ٹریفک کے مسائل میں اضافہ کیاہے۔ یہاں ہر دوسر ا بڑا افسر VIP ہے اُس کیلئے سگنل بند کردیا جاتا ہے۔جسکی وجہ سے ٹریفک بعض اوقات 15 سے 20 منٹ تک بند رہنے سے ٹریفک دباؤ بڑھتا ہے اور جب کھلتا ہے تو آگے نکلنے کی دوڑ میں حادثات جنم لیتے ہیں ۔ اب براہ کرم حکومت بتادے کس کیلئے ٹریفک سگنل بند کرنا ضروری کس کیلئے نہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں لگی فینسی لائٹس بھی حادثات کا باعث بنتی ہیں ان کو برسوں پہلے غیر قانونی قرار دیا گیا تھا مگر یہ مارکیٹ میں موجود ہیں اور گاڑیوں میں لگی ہوئی بھی ہیں۔ کبھی کبھار نام نہاد مہم کالے شیشوں اور فینسی لائٹس کے خلاف چلتی ہے اور پھر نامعلوم وجوہات کی بنا ختم کردی جاتی ہے۔

حل کیا ہے؟ یہی بنیادی سوال ہے ۔1۔ تمام تر سیاست سے بالاتر ہوکر کراچی سرکلر ریلوے فوری طور پر بحال کی جائے، وفاقی حکومت ریلوے سے کارگو سروس شروع کرے اور کنٹینر اور ٹرالر کی شہر میں آمد پر پابندی لگائی جائے۔ 2۔ کراچی کی تمام سڑکیں تجاوزات سے پاک کی جائیں اور تمام سروس روڈز اپنی اصل حالت میں واپس لائی جائیں۔ 3۔ سڑکوں یا بسوں کے مثلاً گرین لائن، ریڈلائن، بلولائن وغیرہ جیسے کسی بھی پروجیکٹ پر کام شروع کرنے سے پہلے سائیڈ روڈز کو بہتر بناکر متبادل راستے بنائے جائیں۔ میں وزیراعلیٰ اور وزیر ٹرانسپورٹ کی توجہ برسوں سے کھدی ہوئی یونیورسٹی روڈ کے متبادل راستوں کی طرف دلا چُکا ہوں مگر تا حال اُس علاقے میں رہنے والے لاکھوں لوگ ایک عذاب میں مبتلا ہیں۔(4) اکثر بسوں، منی بسوں، ڈمپر، ٹرالر اور واٹر ٹینکر ان فٹ ہیں اور یہ بھی ضروری ہے کہ ڈرائیور کی نفسیات کو بھی سمجھا جائے لمبے روٹس کی وجہ سے اُن میں اکثر منشیات کا استعمال کرتے ہیں، اِس عمل کو روکا جائے۔ (5) کراچی میں ٹریفک کا دباؤ کم کرنا ہے تو بڑی بسوں کا جال پھیلانے کی ضرورت ہے مگر اِس کیلئے اچھی سڑکیں بھی ضروری ہیں۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ تاخیر سے ہی سہی لیاری ایکسپریس وے اور اب ملیر ایکسپریس وے بہت اچھے منصوبے ہیں اور اِن سے یقینی طور پر ٹریفک دباؤ میں کمی واقع ہوگی تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک واضح کراچی ٹرانسپورٹ پالیسی کا اعلان کیا جائے جو صرف دکھاوے کی نہ ہو۔ یہاں پر منصوبے میں اتنی تاخیر کی جاتی ہے کہ جب تک وہ پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے مسائل اور بڑھ جاتے ہیں۔ دو مثالیں آپ کے سامنے رکھ دیتاہوں فیصلہ خود کرلیں۔

میں بیمار ہوں !

1985ء میں بشریٰ زیدی کیس ہوا تو احساس ہوا کہ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ سنگین ہے اُس کے بعد وہاں بھی، جہاں حادثہ ہوا تھا اور دیگر علاقوں میں اوور ہیڈبرج اور انڈر پاس بننے شروع ہوئے۔ 1982ء میں کراچی ایمپریس مارکیٹ اور بوری بازار کے قریب دو بم دھماکوں میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک اور 250زخمی ہوئے تو کہا گیا’تجاوزات‘ کے خلاف آپریشن کرکے علاقہ کو صاف اور بہتر کیا جائے۔ ان واقعات کو40 سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے کئی حکومتیں آئیں اور گئیں مگر نہ ٹرانسپورٹ کا نظام اُس لحاظ سے بہتر ہو ا، نہ تجاوزات ہٹاکر سڑکوں کو ٹریفک کیلئےآسان بنایا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ جن نلکوں میں پانی آتا تھا وہاں بھی اب ٹینکر کےبغیر گزارا نہیں ایسے میں ٹینکر زیادہ سے زیادہ پانی لانے اور پہنچانے کی ریس میں حادثات کا باعث بنتا اور منی بس والا زیادہ کمیشن لینے کیلئے۔ خدارا اس شہر کی ملکیت لیں اب یہ ’شہر بے مہر‘ کسی اور بشریٰ زیدی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

Check Also
Close
Back to top button