عید کی چھٹیوں میں "نیو آئی کون” اور "دی گولڈن روڈ” کا مطالعہ

تحریر : نصرت جاوید
بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت
عمر کے آخری حصے میں بھی سفید پوشی برقررار رکھنے کے لئے روز کی روٹی روز کمانے کو مجبور مجھ جیسے لوگ اکثر خود کو آزمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گماں ہوتا ہے کہ خود پر بخوشی نازل کیا ’’امتحان‘‘ ذہن کو چست اور جسم کو زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کے قابل رکھے گا۔ حتمی طورپراگرچہ یہ کہہ نہیں سکتا کہ خود کو ایسے امتحانوں سے گزارنا بھی چاہیے یا نہیں۔ صوفی تبسم صاحب کا وہ شعر خواہ مخواہ کی آزمائش ٹالنے کے کام آتا ہے جو چمن کے سوبار مہکنے کے باوجود دنیا کی رونق کے مقابلے میں ’’دل کی وہی تنہائی‘‘ کا ذکر کرتا ہے۔
فلسفیانہ ٹامک ٹوئی سے محفوظ رہنے کے لئے اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ گزری جمعرات کی شام فیصلہ کیا کہ جمعہ سے عید کی جو تعطیلات شروع ہوں گی ان کے دوران سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم پر نگاہ نہیں ڈالی جائے گی۔ ٹویٹر جسے اب Xکہاجاتا ہے استعمال کرنے کی مجھے علت لاحق ہے۔ اسے تعطیلات کے تینوں دن استعمال نہیں کیا۔ فیس بک کا عادی نہیں۔ اس سے بچت لہٰذا کمال کی بات نہیں۔ ایک دو لوگوں کو یوٹیوب کے ذریعے سننے سے اگرچہ رہ نہیں پایا۔ سوشل میڈیا سے پرہیز کا جو عہد باندھا تھا اسے نبھانے میں دس میں سے آٹھ نمبر حاصل کرنے کا دعوے دار ہوں۔ جو وقت بچایا اسے فرحت اللہ بابر صاحب کی آصف علی زرداری کے گزشتہ دورِ صدارت کی بابت لکھی کتاب مکمل کرنے میں صرف کیا۔ اس کے بعد ایک کتاب شروع کی ہے۔ اس کا نام ہے "The New Icon”سادہ زبان میں اسے ’’نیا دیوتا‘‘ کہا جاسکتا ہے۔
جس کتاب کا ذکر ہورہا ہے وہ ہندوتوا کے معروف نظریہ ساز ساورکار کے بارے میں ہے۔ اسے ارون شوری نے لکھا ہے جو بھارت کے مشہور صحافی اور مدیر رہے ہیں۔ موصوف نے بطور صحافی ہندوتوا نظریات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے بدخواہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نریندر مودی کی جانب سے نظرانداز کئے جانے کی وجہ سے اب وہ نہ صرف بی جے پی بلکہ ہندوتوا کا بھی تنقیدی جائزہ لینا شروع ہوگئے ہیں۔ اسی باعث ساور کار کی شخصیت اور نظریات کو ’’حقائق کی روشنی‘‘ میں جانچنے کے لئے نہایت لگن سے 500سے زیادہ صفحات پر کتاب لکھ ڈالی۔ میری دانست میں مودی سرکار کی پالیسیوں کو سمجھنے کے لئے ساور کار کے بارے میں لکھی اس کتاب کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔
ساور کار کے بارے میں لکھی کتاب کے علاوہ ولیم ڈیل رمپل Dalrymple William کی لکھی کتاب "The Golden Road” سونے کی شاہراہ) بھی سرہانے رکھ لی۔ ولیم نوجوانی میں بطور سیاح بھارت آیا۔ دلی میں لیکن اس کا جی اٹک کررہ گیا۔ اس شہر کے بارے میں بالآخر اس نے اپنی پہلی کتاب لکھی اور دلی کو ’’جِنّوں کا شہر‘‘پکارا۔ میں نے وہ کتاب دہلی میں قیام کے دوران پرانی کتابوں کے ایک ٹھیلے سے خریدی تھی۔ اسے پڑھنے کے بعد ولیم کے اندازِ تحریر کا دلدادہ ہوگیا۔ اس کی لکھی کتابیں (ابھی تک) یہ بیان کرتی آئی ہیں کہ ہندوستان کو دنیا کے لئے پرکشش بنانے کے لئے ہندوتہذیب اور اجنتا یا ایلورا کافی نہیں تھے۔ مسلمان سلطانوں کے تقریباََ 800سالوں نے اسے مختلف تہذیبوں کے گلدستے کی شکل فراہم کرتے ہوئے مزید پرکشش بنایا۔
2014ء کے انتخابات کے قریب ولیم نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں تلخ و تند زبان استعمال کرتے ہوئے وہ حیرانی کا اظہار کرتا رہا کہ دلی کے خوشحال گھروں میں انگریز صاحب بہادروں کی طرح رہنے کے عادی اور آکسفورڈ کے لہجے میں انگریزی بولنے والے افراد گجرات سے ابھرے ہندوانتہا پسند کو بھارت کا وزیر اعظم بنانے کو کیوں بے قرار ہیں۔ نریندر مودی کا عروج اس کی دانست میں بھارت کو فقط ہندو?ں کا ملک بناکر اس کی گلدستہ والی خوب صورتی ختم کرسکتا ہے۔
’’دی گولڈن روڈ‘‘ نامی کتاب مگر قاری کو یہ سمجھانے کے لئے لکھی گئی ہے کہ ’’قدیم‘‘ یعنی قبل از اسلام بھارت نے کس طرح ’’دنیا کو بدل ڈالا‘‘ اس کتاب کی بدولت ولیم دنیا کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہے کہ قدیم یونان کی طرح قدیم بھارت نے بھی اپنے خیالات کی وجہ سے جاپان تک بدھ ازم پھیلایا، اسلامی خلافت کے بغداد کو زیرو (صفر) جیسے کلیدی ہندسے کے علاوہ ستاروں کی چال پر نگاہ رکھنے کا عادی بنایا اور آج بھی تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور مشرقی ایشیاء کے بیشتر ممالک جن میں انڈونیشیاء اور ملائیشیا جیسے مسلم اکثریتی ملک بھی شامل ہیں ’’ہندوورثے‘‘ کے اثر تلے زندگی گزاررہے ہیں۔
’’دی گولڈن روڈ‘‘ کا عنوان دیکھتے ہی میرے ذہن میں ’’سلک روٹ‘‘ کا خیال آیا۔ ’’شاہراہ ریشم‘‘ کا تصور جیسا کہ آپ جانتے ہیں فوری طورپر ذہن میں چینی ثقافت کی بالادستی کا خیال لاتا ہے۔ مجھے شبہ ہوا کہ ولیم نے ’’دی گولڈن روڈ‘‘ دنیا کو یہ بتانے کے لئے لکھی ہے کہ ’’شاہراہ ریشم‘‘ نظریات وخیالات کے بجائے ’’تجارت‘‘ سے وابستہ رہی ہے۔ اسے چینی ثقافت کی بالادستی کا مظہر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ’’دی گولڈن روڈ‘‘ نے شاہراہ ریشم کے مقابلے میں قدیم بھارت میں مروج تصورات ونظریات کو روم کی بندرگاہوں سے بغداد ہی نہیں بلکہ مشرقی ایشیاء میں تھائی لینڈ، کمبوڈیا، انڈونیشیا اور ملائیشیا تک پھیلایا۔ سچی بات ہے میرے وسوسوں بھرے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ ولیم نے ’’دی گولڈن روڈ‘‘ لکھ کر مودی سیاست کے عروج کی بابت اپنی رائے سے رجوع کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ رواں صدی کے آغاز سے امریکہ بھارت کو چین کے مساوی قوت بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس مقصد کے تحت بھارت کو جنوبی ایشیاء کے بجائے Indo-Pacificخطے کا کلیدی کردار بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ خیال یہ بھی تھا کہ بھارت جنوبی ایشیاء سے توجہ ہٹاکر ان ممالک سے تعلقات بڑھانے پر غور کرے جو اِن دنوں آسیان نامی تنظیم کا حصہ ہیں۔ یوں چین کے مقابلے کے لئے بھارت کی قیادت تلے ایک عظیم تر متحدہ محاذ قائم کیا جائے۔
مذکورہ بالا سوچ لیکن میرے ذہن میں ’’دی گولڈن روڈ‘‘ پرسرسری نگاہ ڈالنے کے بعد برجستہ انداز میں ابھری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کتاب مکمل کرلینے کے بعد میں اسے بدلنے کو مجبور ہوجائوں۔ سوشل میڈیا سے دوری اور کتابوں سے قربت کی وجہ سے میں ’’اقتصادی سروے‘‘ کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھ رہا جو یہ کالم دفتر پہنچ جانے کے چند گھنٹوں بعد منظر عام پر آئے گا۔ معیشت ویسے بھی میرا مضمون نہیں ہے۔ اس پر تبصرہ آرائی سے پرہیز کئی اعتبار سے بہتر ہے۔