کینیڈا میں جمہوریہ خالصتان کا سفارت خانہ، انڈیا کیلئے گرم آلو

ایک ایسے وقت میں کہ جب صدر ٹرمپ کی جانب سے انڈیا پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے اور پاکستان سے پیار کی پینگیں ڈالنے کی خبریں عام ہیں، کینیڈا میں بھارتی حکومت کے لیے ایک ایسی پیش رفت ہوئی ہے جس نے کہ بھارتی حکومت کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں جمہوریہ خالصتان کے سفارت خانے کے قیام نے بھارت اور کینیڈا کے مابین سفارتی تعلقات مزید کشیدہ کر دیے ہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں خرابی تب آئی جب کینیڈا کی حکومت نے انڈین ایجنسیوں پر کینیڈین سکھ رہنماؤں کو قتل کروانے کا الزام عائد کیا۔ اب کینیڈا میں جمہوریہ خالصتان کا بورڈ بھی اس گوردوارے کے باہر نصب کیا گیا ہے جہاں خالصتان تحریک کے رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو بھارتی خفیہ ایجنسی "را” نے قتل کیا تھا۔

اس برس جون میں انڈین وزیر اعظم مودی جب کینیڈین وزیر اعظم مارک کارنی کی دعوت پر جی سیون کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کے لیے کینیڈا کے دورے پر پہنچے تو اسے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ مودی کے دورہ کینیڈا کے دوران اتفاق ہوا تھا کہ دونوں ممالک کے مابین باہمی رشتوں کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیں۔ لیکن اب کینیڈا میں ایک خالصتانی سفارت خانے کے قیام نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو دوبارہ کشیدگی سے دوچار کر دیا ہے۔

’برٹش کولمبیا‘ میں خالصتان تحریک کے حامی سکھ عناصر نے ’ریپبک آف خالصتان‘ کا بورڈ بورڈ کینیڈا کے سرے شہر کے اُس گوردوارے کے کمیونٹی سینٹر پر نصب کیا ہے جس کی سربراہی بھارتی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں قتل ہونے والے ہردیپ سنگھ نجر کرتے تھے۔ یاد رہے کہ انڈیا نے ہردیپ کو ’دہشت گرد‘ قرار دے رکھا تھا۔ وہ 2023 میں اسی گوردوارے کی پارکنگ لاٹ میں ہونے والے حملے میں قتل کر دیے گئے تھے۔

کینیڈا میں نجر سنگھ کے قتل نے بھارت اور انڈیا کے سفارتی تنازعے کو عروج پر پہنچا دیا تھا۔ کینیڈین حکومت نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے بھارتی ایجنسی پر ہردیپ سنگھ کے قتل کا الزام عائد کر دیا تھا۔ کینیڈا میں ریپبلک آف خالصتان کے قیام پر ابھی تک انڈیا اور کینیڈا کی جانب سے کوئی باضابطہ ردعمل نہیں دیا گیا، مگر انڈین ذرائع ابلاغ نے اس معاملے کی وسیع پیمانے پر کوریج کی ہے جبکہ اس کی تصاویر انڈین سوشل میڈیا پر وائرل رہی ہیں۔

انڈیا کا موقف ہے کہ کینیڈین سرزمین مسلسل انڈیا مخالف کارروائیوں کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ جب 2023 میں کینیڈین حکومت نے بھارتی خفیہ ایجنسی پر ہردیپ کے قتل کا الزام عائد کیا تو بھارت نے کینیڈا کے سفیر کو ملک بدر کر دیا تھا۔ جواب میں کینیڈا نے بھی بھارتی سفیر کو بے دخل کر دیا تھا۔ تب کینیڈین وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ ان کی پولیس اس قتل میں انڈین ایجنٹس کے براہ راست ملوث ہونے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ کینیڈا میں انڈین ایجنٹس خالصتان کے حامیوں کے خلاف ’قتل، بھتہ خوری اور پرُتشدد کارروائیوں‘ میں ملوث ہیں۔

انڈیا نے ان الزامات کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا تھا۔ لیکن امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ ’کینیڈا کی حکومت کے الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں اور انھیں سنجیدگی سے دیکھنے اور ان کی تفتیش کرنے کی ضرورت ہے۔‘ تاہم تازہ واقعے کو ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ریپبلک آف خالصتان کا سفارت خانہ سکھس فار جسٹس نامی تنظیم کی جانب سے قائم کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سکھس فار جسٹس نامی تنظیم کی جانب سے کینیڈا میں ’خالصتان ریفرینڈم‘ کے انعقاد کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

انڈین میڈیا میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ’اس معاملے میں شامل سفارتی حساسیت کے پیش نظر مارک کارنی کی وفاقی حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔‘

دلپریت چوپڑا نامی ایک صارف نے لکھا: ‘مغربی ممالک کی جانب سے خالصتانی بنیاد پرستوں کو خوش کرنے کی کوئی حد نہیں ہے۔ برطانیہ کے ایک ریگولیٹر نے مذہبی اظہار کی آزادی کی آڑ میں اصطلاح کے سیاسی معنی کو نظر انداز کرتے ہوئے گوردواروں میں اب ’خالصتان‘ کی تختیاں لگانے کی اجازت دی ہے۔ یہ خطرناک نظیر ہے۔‘

یاد رہے کہ کینیڈا میں تقریباً سات لاکھ 77 ہزار سکھ آباد ہیں۔ 1980 اور 1990 کی دہائی میں انڈیا میں سکھ علیحدگی پسند تحریک کے دوران کافی قتل و غارت گری ہوئی تھی اور اس سبب بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ انڈیا کینیڈا پر الزام لگاتا آیا ہے کہ اس نے اپنے ملک میں خالصتان تحریک کے حامیوں کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی۔

Back to top button