اگر آج جناح زندہ ہوتے تو بھی عمران خان جیل میں کیوں بند ہوتا ؟

اگر آج بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح زندہ ہوتے تو پاکستان کیسا ہوتا؟ اس بارے حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر آج بانی پاکستان حیات ہوتے تو بانی تحریک انصاف عمران خان جیل میں ہی ہوتے کیونکہ وہ کسی ایسی جماعت یا لیڈر کا وجود پسند نہ کرتے جو خود کو وطن سے بالاتر سمجھے، جو اپنے کارکنوں کو پاکستانی پاسپورٹ جلانے کی ترغیب دے، جو یوتھیوں کو سبز ہلالی پرچم پیروں تلے روندنے کا حکم دے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں معروف لکھاری عمار مسعود ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محمد علی جناح بھی ایسے کسی شخص کو کوئی رعایت نہ دینتے جو ’خان نہیں تو پاکستان نہیں‘ کے نعرے لگوائے، جو 9 مئی 2023 جیسے افسوسناک واقعات کا ماسٹر مائنڈ ہو، اور جو معاشرے میں انتشار اور اختلاف کو ہوا دے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو انتشار پھیلانے والوں کے بارے حتمی  فیصلے اب تک آ چکے ہوتے۔ جناح کی حکومت انتشاریوں کے سوشل میڈیا بریگیڈ سے خوف نہ کھاتی۔ اگر آج جناح زندہ ہوتے تو ریاست ڈٹ کر اپنے مؤقف کا دفاع کر رہی ہوتی اور انتشاریوں کا انجام نوشتہ دیوار ہوتا۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ  عجیب سا گمان ذہن کے دریچوں پر دستک دے رہا ہے۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ اگر قائد اعظم نحند عکی جناح، دنیا کی سب بڑی مسلمان ریاست کے رہبر و رہنما، آج حیات ہوتے تو یہ ملک کیا ہوتا؟ اس میں بسنے والوں کی کیا حالت ہوتی؟ اس خطے کی صورت کیا ہوتی اور کیا حال ہوتا؟ خیال کی اس پرواز میں تخیل کا پرندہ جانے کس اور پرواز کر گیا,  فیصلہ آپ کیجیے۔

اگر قائد اعظم زندہ ہوتے تو اس ملک میں کس طرح کا نظام حکومت ہونا ہے، اس کا فیصلہ ضرور ہو چکا ہوتا۔ اسلامی نظام نافذ ہو چکا ہوتا۔ جمہوریت پنپ چکی ہوتی۔ عوام کی رائے صائب ہو چکی ہوتی۔ عوامی نمائندگان کے ادارے مستحکم ہو چکے ہوتے۔ عوامی نمائندگان 77 برس میں اپنے حقوق و فرائض سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہوتے۔ اسمبلی اور پارلیمنٹ عوام کی امیدوں کا مرکز بن چکے ہوتے۔ عوامی نمائندگان سے عوام ان کی کارکردگی کے بارے میں سرعام سوال کر رہے ہوتے یوں سینیٹرز  اور ارکان اسمبلی  عوام کو جواب دہ ہوتے۔

عمار مسعود کے بقول اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو معیشت ترقی کر چکی ہوتی۔ بیلنس آف پیمنٹ میں توازن آ چکا ہوتا۔ سٹاک مارکیٹ آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی۔ دنیا پاکستانی معیشت کو رشک کی نظروں سے تک رہی ہوتی۔ روپے کی قدر ڈالر سے کہیں زیادہ ہوتی۔ پاکستان قرضوں کے بار تلے  دبا نہیں ہوتا۔ پاکستان اس پوزیشن میں ہوتا کہ غریب ملکوں کی مدد کر رہا ہوتا۔ اشیائے صرف عوام کی دسترس میں ہوتیں۔ بجلی اور گیس کے بل عوام کے لیے سوہان روح نہ بنے ہوتے۔  پاکستان کا شمار دنیا کی بڑی معیشتوں میں ہوتا، اور ہم جی سیون اور جی ایٹ جیسے گروپوں کے اہم رکن ہوتے۔

عمار کہتے ییں کہ اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے خارجہ پالیسی کے محاذ پر ہم کامیاب ہو رہے ہوتے۔ ہمارے تمام دوست  ملکوں سے بہتر تعلقات ہوتے۔ دشمن ملک ہماری ہیبت سے کانپ رہے ہوتے۔ دنیا میں پاکستان کی اہمیت ہوتی۔ شاید اقوام متحدہ ہمیں ویٹو کا حق بھی دے دیتی۔ دنیا ہمیں قرض لینے والے ملکوں میں شمار نہ کرتی، بلکہ ایک خود مختار آزاد مسلمان ریاست کی طرح اہمیت دیتی۔ اسلامی بلاک بن چکا ہوتا، پاکستان اس کی قیادت کررہا ہوتا۔ دنیا کے جھگڑوں میں پاکستان کا کردار تصیفہ کرانے والوں میں ہوتا۔ ہمارے ووٹ کی اقوام متحدہ میں اہمیت ہوتی۔ دنیا ہمارے طرف داری کی متمنی ہوتی۔ بھارت کی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ کبھی آنکھ اٹھا کر بھی ہماری طرف دیکھتا۔

عمار مسعود مزید کہتے ہیں کہ اگر قائد اعظم زندہ ہوتے تو کبھی بھی پاکستان میں مارشل لا نہ لگتا۔ کسی کو جرأت نہ ہوتی کہ عوام کے نمائندگان کے ووٹ کی حرمت کو خاک میں ملائے۔ کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ آئین میں اپنی مرضی کی ترمیم کرے۔ کسی میں اتنا حوصلہ نہ ہوتا کہ کہ نظریہ ضرورت کی تحت ڈکٹیٹروں کو حق حکمرانی دیتا۔ پاکستانی تاریخ میں ایوب خان، ضیاالحق اور مشرف کے نام بھی نہیں ہوتے۔ بنگلہ دیش اب بھی مشرقی پاکستان ہوتا، اور پاکستان اصل معنوں میں ایک جمہوری ملک ہوتا۔ جہاں آئین کی حکمرانی، قانون کی عملداری اور ووٹ کی عزت ہوتی۔ ریاست عوام کے لیے سوتیلی نہیں سگی ماں جیسی ہوتی۔  پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو چکا ہوتا۔

عمار مسعود کی خیال میں اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو اپنی یہاں سڑکیں بن چکی ہوتیں، سکول تعمیر ہو چکے ہوتے صحت کی سہولیات سب کو میسر ہوتیں، اس خطے سے بھوک ختم ہو چکی ہوتی۔ افلاس مٹ  چکا ہوتا۔ روزگار کے بے شمار مواقع ہوتے۔ خواتین پاکستان کی ترقی میں شانہ بشانہ شریک ہوتیں۔ نوجوان تعمیری کاموں اور مںصوبوں میں مگن ہوتے۔ کھیل اور فنون کی ترویج ہو رہی ہوتی۔ فن اور فنکار کی عزت ہوتی۔ تعلیم کے لیے بے شمار بین الاقوامی  سطح کی یونیورسٹیاں ہوتیں جو مفت تعلیم بانٹ رہی ہوتیں۔ پاکستان کے ہنرمند نوجوان دوسرے ممالک میں  وطن کا نام روش کر رہے ہوتے۔ پاکستان میں ناخواندگی نام کو نہ ہوتی۔ کھیلوں میں پاکستان کا اعلیٰ مقام ہوتا، اولپکس میں پاکستان کے نام کا ڈنکا بج رہا ہوتا، ہمارے کھلاڑیوں کی جھولیاں سنہری اور نقرئی میڈلز سے بھر گئی ہوتیں۔ ہر کھیل میں وکٹری اسٹینڈ پر پاکستان کا جھنڈا بلند ہوتا۔ پاکستان کا ترانہ ملکوں ملکوں گونج رہا ہوتا۔

عمار کے مطابق اگر آج قائد زندہ ہوتے تو پاکستان سے جاگیردارنہ نظام ختم ہوچکا ہوتا۔ وڈیروں اور زمینداروں کی اسمبلیوں میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ایوان عوامی فلاح کے قانون بناتے اور اسمگلر اور پراپرٹی ڈیلر پیسے کے بل بوتے پر پارلیمنٹ کا حصہ نہ ہوتے۔ سیاست میں کرپشن ختم ہو چکی ہوتی۔ سیاست کو لوگ عبادت سمجھتے اور عوام کی خدمت بجا لانا اپنا فرض جانتے۔ تعلیم  یافتہ نوجوان قیادت اسمبلیوں میں آ چکی ہوتی، جمہوریت نتھر چکی ہوتی، جمہور سنور چکے ہوتے، معیشت سنبھل چکی ہوتی، ہم خود مختار ہوتے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں سے خوفزدہ دبکے نہ بیٹھے ہوتے۔

فوجی عدالت سے سزا پانے والے حسان نیازی اور بریگیڈیئر جاوید کون ہیں؟

عمار مسعود کے مطابق ان میں سے بہت سی باتیں خواب ہیں، خیال ہیں، سپنے ہیں۔ کسی بات کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔  قائد کی شخصیت،  سیاست اور متانت کو دیکھ کر یہ اندازے لگائے گئے ہیں جو خواب لگتے ہیں۔ کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔ کوئی اٹل فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔ سب خوش گمانی ہے خوش خیالی ہے ۔ لیکن ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر آج جناح زندہ ہوتے تو بھی عمران خان جیل میں ہوتا کیونکہ قائد کسی ایسی جماعت یا لیڈر کا وجود پسند نہ کرتے جو خود کو وطن سے بالاتر سمجھے، اور ’خان نہیں تو پاکستان نہیں‘ کے نعرے لگوائے۔

Back to top button