روز بروز بڑھتی دھشت گردی میں انتخابات کیسے ھوں گے؟

 سینئر صحافی اور کالم نگار عاصمہ شیرازی نے کہا ھے کہ عام انتخابات کی راہ میں بظاہر کچھ رکاوٹ نہیں تاہم امن و امان ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔ انتخابات کے آئینی عمل کو ہر صورت مکمل ہونا چاہیے اور اس کے لیے سیاسی مذاکروں اور عوامی رابطوں کو تیز کیا جانا ضروری ہے۔ اگر شفاف انتخابات کے لیے سیاسی ماحول نہ ہوا تو 2024 کے عام  انتخابات کہیں موت کے کنویں میں محض سیاسی کرتب بازی نہ بن جائیں۔

اپنی ایک تحریر میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ وطن عزیز میں انتخابات کا موسم بھی آ پہنچا ہے۔ چیف جسٹس  نے درست تنبیہہ کی کہ خبردار کوئی شک شُبے کا اظہار نہ کرے، انتخابات میں بے یقینی محسوس ہو تو بیوی سے چپکے سے کہہ دینا ٹی وی پر اظہار نہ کرنا مگر کیا کروں کہ جب سے تاریخ آئی ہے یہاں وہاں بدامنی کا ماحول ہے اور انتخابات کا ماحول ہی نہیں بن پا رہا۔ گوادر میں چودہ سکیورٹی اہلکار ہلاک، میانوالی بیس پر غیر معمولی حملہ آور ڈی آئی خان میں پولیس چوکیوں پر حملہ۔۔۔ ایسے میں انتخابات کیسے ہوں گے؟ لیول پلیئنگ فیلڈ کس کو ملے گی؟ کسی کو سیاسی طور پر جلسہ کرنے کی آزادی نہیں تو کوئی ان دہشت گردوں کی کارروائیوں کے ہاتھوں انتخابی مہم روکنے پر مجبور ھے ۔ تحریک انصاف کے ’محفوظ‘ سیاسی رہنماؤں کو پھر شاید کسی عدالت سے انتخابات اور مہم کا پروانہ مل جائے مگر دہشت گرد کسی پروانے کے تابع ہیں اور نہ اجازت درکار ہے۔ جمیعت علمائے اسلام جیسی مذہبی جماعت بھی اگر دہشت گردوں کے ہاتھوں فیلڈ میں نکلنے سے معذوری کا اظہار کرے اور پے در پے اُن کے رہنما حافظ حمداللہ اور باجوڑ میں کارنر میٹنگز نشانہ بنیں تو انتخابات کے لیے لیول پلینگ فیلڈ کسے دستیاب ہو گی۔ ان دہشت گردی کی کاروائیوں کا نشانہ کون کون ہے اور کس کس کو ’ہدف‘ بنایا جا سکتا ہے اس پر خدشہ بھی خوف کا شکار ہے۔

عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری جیسے سیاست دان جانتے ہیں کہ لفظی گولہ باری اور سیاسی محاذ آرائی کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی ان دو کے ساتھ ایک صفحے پر آ رہے ہیں۔ تینوں رہنماؤں کو حالات کی اصل سنگینی کا اندازہ ہے، امن و امان اور سلامتی کی صورتحال سنگین ہے اور ضرورت ہے کہ مملکت کو کسی خوف سے بچانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھا جائے۔ عمران خان بات چیت کے لیے تیار ہوں تو اُنھیں جیل میں آمادہ کیا جائے اور اگر وہ تیار نہ ہوں تو صدر علوی کا ’گُڈ آفس‘ سیاسی ماحول کے لیے آزمایا جائے۔ بہتر ہو کہ سیاستدان بڑے پن کا مظاہرہ کریں اور اب کی بار معاملہ سپریم کورٹ نہ جائے۔ انتخابات سے قبل ڈائیلاگ اور مکالمے کی راہ ہموار کی جائے، آئین موجود ہے اُس کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے اعلیٰ عدلیہ اپنا کام کرے لیکن اگر شفاف انتخابات کے لیے سیاسی ماحول نہ ہوا تو انتخابات کہیں موت کے کنویں میں محض سیاسی کرتب بازی نہ بن جائیں ۔

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ عام انتخابات کی راہ میں بظاہر کچھ رکاوٹ نہیں تاہم امن و امان ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔ انتخابات کے آئینی عمل کو ہر صورت مکمل ہونا چاہیے اور اس کے لیے سیاسی مذاکروں اور عوامی رابطوں کو تیز کیا جانا ضروری ہے۔ امکان ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں واحد کامیاب سیاسی جماعت ہو جبکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی غیرموجودگی میں بھی مقابلہ سخت ہو گا۔ پی ٹی آئی کے مایوس ووٹر کا بھی سیاسی مشق کا حصہ بننا ضروری ہے تو پنجاب میں ن لیگ کے سپورٹر کو باہر نکالنے کی کوشش بھی ایک اہم مرحلہ ہو گا۔ اصل کھیل تاثر کا ہو گا جو بہرحال حقیقت پر حاوی ہو سکتا ہے

Related Articles

Back to top button