سینیٹ سیٹ بچانے کے لیے اسحاق ڈار کا الیکشن کمیشن کو خط

https://youtu.be/Egcp6F7vE6w

اسلام آباد ہائی کورٹ سے حال ہی میں ایک خاص مدت کے اندر بطور ممبر پارلیمنٹ حلف اٹھانے کے صدارتی آرڈیننس کے خلاف اپنی درخواست خارج ہونے کے بعد سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ کی نشست بچانے کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں۔ یاد رہے کہ حکومت نے حال ہی میں وزیر خزانہ شوکت ترین کو سینیٹر بنوانے کے لیے اسحاق ڈار کی نشست خالی کروانے کی خاطر ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت اسحاق ڈار کے لیے فوری طور پر حلف لینا ضروری ہو گیا تھا۔ چنانچہ نون لیگی سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اس صدارتی آرڈیننس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر درخواست مسترد کر دی کہ وہ پارلیمنٹ سے متعلق قانون سازی میں دخل اندازی کا اختیار نہیں رکھتی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ نئے صدارتی آرڈیننس کی روشنی میں اسحٰق ڈار کی سینیٹ میں اپنی نشست برقرار رکھنے کے لیے حلف اٹھانے کی قانونی مدت 2 ہفتے میں ختم ہونے والی ہے، چنانچہ انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایک خط لکھ کر استدعا کی ہے کہ 40 روز کے اندر حلف اٹھانے کا اصول ان پر لاگو نہیں ہوتا۔ انہوں نے ای سی پی کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ سینیٹ نشست پر ان کی کامیابی کا نوٹی فکیشن سپریم کورٹ نے 8 مئی 2018 کو معطل کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ان کا مقدمہ تاحال التوا کا شکار ہے اور جب تک معطلی کا حکم برقرار ہے وہ سینیٹ کا حلف لینے کے اہل نہیں ہیں۔
اسحٰق ڈار نے یکم ستمبر کو نافذ ہونے والے صدارتی آرڈیننس کا حوالہ بھی دیا جس کے تحت آرڈیننس کے نفاذ کے بعد 40 روز کے اندر حلف نہ اٹھانے والا قانون ساز اپنا عہدہ برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ تب حلف اٹھائیں گے جب سپریم کورٹ کی جانب سے ان کے نوٹیفکیشن کی معطلی معطلی کا حکم ختم ہوجائے گا۔
لندن میں مقیم سابق وفاقی وزیر نے اپنے خط کی نقل چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو بھی ارسال کی ہے۔ خیال رہے کہ وفاقی حکومت بے صبری سے منتظر ہے کہ اسحٰق ڈار کی نشست خالی ہو اور اس پر وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کو سینیٹر منتخب کیا جائے وگرنہ وہ اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ پائیں گے کیونکہ آئین کے تحت کسی بھی غیر منتخب وزیر یا مشیر کے لیے اپنی تقرری کے چھے مہینے کے اندر پارلیمنٹ کا رکن بننا لازمی ہوتا ہے۔

Related Articles

Back to top button