پرانے AC کی فروخت کا کاروبار کیسے کیا جاتا ہے؟

لوگ اکثر یہ سوچ کر حیران ہوتے ہیں کہ آخر پرانے اے سی کو خریدنے والے اس کو کیسے استعمال میں لاتے ہیں، اس کا کاروبار کرنے والے افراد اپنے پیغامات کو آئے روز ایس ایم ایس کی صورت میں پھیلاتے رہتے ہیں اور کئی لوگ اس سروس سے فائدہ اُٹھا کر پرانا ونڈو اے سی فروخت کر کے نیا اے سی خریدنے کا بھی سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہم نے اس کاروبار سے جڑے بعض افراد سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں پرانے اور خراب ونڈو اے سی فروخت کے بعد کہاں جاتے ہیں اور انھیں کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ملک میں کئی لوگوں نے بجلی کی بچت کے لیے ونڈو اے سی کی جگہ سپلٹ اے سی لگوانا شروع کر دیئے مگر برسوں تک ان کے پاس یہی پرانے اے سی محفوظ پڑے رہے، اسی طرح سپلٹ اے سی کی جگہ اب ڈی سی انورٹر اے سی لے رہے ہیں کیونکہ یہ کم بجلی استعمال کرتے ہیں۔کراچی سے تعلق رکھنے والے محمد عاقل پرانے ونڈو اے سی کی خرید و فروخت کے کام سے منسلک ہیں۔ اپنے کاروبار کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ کہ وہ گھروں سے پرانے ونڈو یا سپلٹ اے سی خریدتے ہیں کیونکہ ان میں موجود پرزے جیسے کوائل اور کمپریسر قیمتی اشیا ہیں جبکہ ان سے نکلنے والی تانبے اور لوہے جیسی دھات سکریپ یا کباڑ میں فروخت کی جاتی ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ ‘جو (اے سی) ٹھیک حالت میں ہوتے ہیں انھیں مارکیٹ میں سیکنڈ ہینڈ اے سی کے دکانداروں کو فروخت کر دیا جاتا ہے جو ضروری مرمت اور سروس کر کے اسے گاہکوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔عاقل نے بتایا کہ ہمسایہ ممالک جیسے ایران اور افغانستان میں بھی اے سی کے پرزوں کی مانگ پائی جاتی ہے۔ ’اکثر چالو کمپریسر ایران جاتے ہیں، وہاں ان کی بڑی ڈیمانڈ ہے، لیکن خراب کمپریسر گوجوانوالہ جاتے ہیں جہاں انھیں تانبے کے حصول کے لیے سکریپ کیا جاتا ہے۔غلام حیدر بھی پرانے اے سی اور گاڑیوں کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ تھوڑی محنت کے بعد اے سی کو مزید بہتر قیمت میں فروخت کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق ان پرانے اے سی اور سپلٹ کے پرزوں میں انشورنس کمپنی کی بھی خاصی دلچسپی ہوتی ہے، غلام حیدر کے مطابق اس وقت مارکیٹ میں پرانی چیزوں کی مارکیٹ اس وجہ سے بھی بہتر ہے کہ وہ اچھی قیمت میں دوبارہ بھی فروخت ہو جاتی ہیں اور کچھ نہیں تو کم از کم ان کے سپیئرپارٹس تو ضرور کئی جگہوں پر کام آ جاتے ہیں۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق سکریپ سے مراد وہ انڈسٹریل ویسٹ ہے جسے ری سائیکل کر کے منافع کمایا جا سکتا ہے اور ماحول پر اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے، پاکستان میں سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ پر ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2015 کے اندازوں کے تحت ملک میں فی کس سالانہ 1.68 کلو گرام الیکٹرانک ویسٹ (کچرا) پیدا ہوتا ہے جو کہ مجموعی ویسٹ کا دو فیصد حصہ بنتا ہے۔اس کے مطابق ری سائیکل کے قابل ویسٹ نہ صرف الیکٹریکل اور الیکٹرانکس مصنوعات سے پیدا ہوتا ہے بلکہ ایسے ویسٹ کو درآمد بھی کیا جاتا ہے جس میں ری سائیکلنگ کے جامع منصوبے کی عدم موجودگی کے باعث انفارمل سیکٹر ان قیمتی اشیا کو ڈھونڈ کر اس سے منافع حاصل کرتا ہے۔

Related Articles

Back to top button