اس گھر کو آگ لگ گئی….

تحریر: مظہر عباس  بشکریہ روزنامہ جنگ 

یہ آگ تو برسوں سے لگی ہوئی ہے صرف شعلے اب نظر آئے ہیں۔ تین صوبے تو یہ تپش بہت عرصہ سے محسوس کر رہے تھے کچھ رہنمائوں نے بار بار خبردار بھی کیا تھا، چاہے وہ خان عبدالولی خان ہوں یا مولانا شاہ احمد نورانی۔ ’تختہ دار‘ پر جانے سے پہلے تو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں آنے والے وقت کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا تھا۔ آج ساری لڑائی کا مرکز ’پنجاب‘ ہے اور جھگڑا بھی بظاہر ’تخت پنجاب‘ کا ہے دیکھیں ’انجام گلستاں کیا ہوگا‘۔ اس بار آخر ایسا کیا مختلف ہورہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پہلے بھی سیاست بے ربط ہی تھی اب بھی کچھ مختلف نہیں، پہلے بھی ملک میں ’سنسرشپ‘ تھی اب بھی ’زباں بندی‘ ہے۔ پہلے بھی سیاسی کارکن، صحافی غائب ہوتے تھے اب بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے، پہلے بھی ماورائے عدالت قتل ہوتے تھے اب بھی ہوتے ہیں۔ جو کچھ الگ ہو رہا ہے وہ کچھ یوں ہے: پہلے وزیراعظم کو گھر بھیجا جاتا تھا تو ’سہولت کار‘ عدلیہ اس عمل کو درست قرار دے دیتی، ملک میں آئین پامال ہوتا تو ’نظریہ ضرورت‘ آ جاتا، ایک وزیراعظم پھانسی چڑھا تو ایک نے ’جوڈیشل مرڈر‘ کیا دوسرے نے عمل کیا۔ دوتہائی اکثریت والے وزیراعظم کو چند افسران نے وزیراعظم ہائوس سے ’کان‘ پکڑ کر باہر نکالا تو اس اقدام کو درست قرار دیا اور کسی نے اف تک نہ کی۔ آج مختلف یہ ہے کہ عدلیہ منقسم ہی سہی بظاہر وقت کی اپوزیشن کے ساتھ کھڑی اور سابق وزیراعظم کو وہ ریلیف مل رہا ہے جو مانگا بھی نہیں۔ ’آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘ گڈلک، بیسٹ آف لک کے ساتھ زمان پارک پہنچا دیا گیا۔ مگر یہ بات تاریخی طور پر جاننا بہت ضروری ہے کہ پہلے کسی وزیراعظم پر سو کے قریب مقدمات بھی نہیں بنائے گئے۔ جو کچھ پچھلے ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوا، کم و بیش ویسا ہی عمل 1992میں پی پی پی کے رہنما مسرور احسن کے ساتھ سندھ ہائیکورٹ میں ہوا تھا جب چیف جسٹس ناصر اسلم زاہد تھے۔ مگر جو قید مسرور نے کاٹی اس کے بارے میں صرف عمران جان ہی لیں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ قید و بند کیا ہوتی ہے۔ آج مختلف یہ ہے کہ بادی النظر میں عدلیہ عمران کو ریلیف دینے میں لگی ہے اور اسٹیبلشمنٹ 13 جماعتی حکومتی اتحاد کے ساتھ ہے مگر آگ ہے کہ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ یہ بھی پہلے نہیں دیکھنے کو ملا کہ ایک وزیراعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کیا گیا ہو اور وہ پارلیمنٹ، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا ہو۔ اب وہ لڑائی کیسی لڑ رہا ہے کامیاب ہوگا یا ناکام اس پر دو رائے ہو سکتی ہیں مگر شاید عدلیہ سے ایسا ریلیف نہ ملتا تو اس کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا۔ رہ گئی بات اس کے ’لاڈلے‘ ہونے کی تو یہاں تو لاڈلوں‘ کی فوج ظفر موج ہے۔ جو لاڈلا نہیں رہا وہ دوبارہ بننا چاہتا ہے مگر کوئی بنانے کو تیار نہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بھٹو سے لے کر عمران خان تک زیادہ تر بڑے سیاست دان گیٹ نمبر4 کی پیداوار ہیں مگر شاید یہ بات اس لئے بھی کی جاتی ہے کہ بھٹو کا سیاسی سفر ایوب خان سے شروع ہوا۔ اس نے اس کا آغاز اسکندر مرزا کے زمانے میں ایوان صدر کی لائبریری سے کیا اور بقول قدرت اللہ شہاب ’’چند روز میں پریزیڈینٹ ہائوس کی چھوٹی سی لائبریری کو کھنگال کر رکھ دیا۔‘‘ پھر تو وہ کوئے یار سے نکلا اور سوئے دار تک گیا۔ میاں صاحب اور عمران خان کی تخلیق میں قدر ِمشترک یہ ہے کہ دونوں کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جبکہ بھٹو نے اپنی عملی سیاست کا آغاز اسکندر مرزا کی کابینہ اور پھر ایوب خان کی کابینہ سے پہلے ہی کر دیا تھا جب وہ 1954ءمیں لاڑکانہ آبادگار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔ بےنظیر بھٹو نے تو اپنی سیاست کا آغاز برطانیہ میں زمانہ طالب علمی سے کیا اور مارشل لا کیخلاف جدوجہد سے سیاست آگے بڑھائی۔

ہماری سیاست کو برا کہنے، جمہوریت اور سیاست دانوں کو گالی تک دینے والوں کی کوئی کمی نہیں مگر یہ سارے دانشور، تجزیہ کار اور سیاسی دوست صرف ’تخت پنجاب‘ کی سیاست کا جائزہ لے لیں تو بہت سی باتیں سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ ویسے تو یہ اصطلاح ’تخت لاہور‘ کی شریفوں کے دور میں آئی مگر اس کی اصل کہانی جاننے کیلئے سابق مشرقی پاکستان کی سیاست، ون یونٹ اور پھر سانحہ مشرقی پاکستان کو سمجھنا ضروری ہے۔ میں نے کہا نا کہ آگ تو بہت پہلے سے لگی ہوئی ہے اب اس لئے محسوس ہو رہی ہے کہ اب پنجاب اس کی لپیٹ میں ہے۔ پی پی پی کو چار بار تقسیم کیا گیا کامیابی نہ ہوئی تو شریفوں کو تخلیق کیا گیا۔ انہوں نے آنکھیں دکھائیں تو عمران خان کی تخلیق ہوئی۔ پہلے جنرل ضیاء نے سیاست میں آنے کا مشورہ دیا، دعوت دی پھر جنرل حمید گل سے لے کر دیگر جرنیلوں نے حمایت کی زیادہ تر کا مسئلہ عمران کی محبت نہیں شریفوں اور بھٹو سے نفرت تھی۔ اور یہ سارے ایک دوسرے سے لڑتے رہے اور آخر کار جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2018 میں اقتدار دلوانے میں مدد کی اور پھر جب وہ ناراض ہوئے تو بہت سے نئے پرانے لاڈلوں کو جمع کر کے اس لاڈلے سے نجات حاصل کی بس 13لاڈلے اور تخلیق کار ایک غلطی کر گئےکہ ایک تیزی سے غیر مقبول ہوتے وزیراعظم کو مقبول ترین بنا دیا۔ دوسری غلطی یہ کر گئے کہ یہ ان لوگوں میں سے ہے کہ جن کی کوئی کی ضد بن جائےتو وہاں وہ نقصانات اور انجام کی بھی پروا نہیں کرتے۔اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوا ،اب بات بہت آگے تک جا چکی ہے۔ پچھلے چند دنوں اور ہفتوں میں جتنے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن گرفتار ہوئے ، وہ تین چار سال میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ جو کچھ 9مئی کو کراچی تا خیبر ہوا وہ بظاہر اتفاقیہ یا قدرتی ردعمل نہیں تھا ایک خاص منصوبہ بندی نظر آرہی تھی۔ عمران کی لڑائی حکومت سے نہیں کہ وہ اس حکومت کو کچھ سمجھتا ہی نہیں اس کی براہ راست لڑائی اور ٹارگٹ اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ماضی میں جو لوگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہے ہیں وہ آج ’اگر مگر‘ کا شکار ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی سیاسی صورت حال ہے اور لگتا ہے انجام بھی غیر معمولی ہوگا۔

جب تک شعلے چھوٹے صوبوں تک رہے کسی کو اس کی تپش کا احساس تک نہ ہوا اب یہ آگ بڑے صوبےتک آگئی ہے۔ ’تخت پنجاب‘ کی لڑائی تختہ تک آن پہنچی ہے۔ ولی خان نے کہا تھا کہ ہم جو کھیل افغانستان میں کھیل رہے ہیں اس کا اختتام ایسا نہ ہو کہ اسلام آباد میں ہو۔ مولانا نورانی نے 1982ءمیں کراچی پریس کلب میں کہا تھا’’اگر یہ باربار کی مداخلت ختم نہ ہوئی تو اس آگ کو کوئی پھیلنے سےکوئی نہیں روک سکتا۔‘‘

Related Articles

Back to top button