آئی ٹی کی صنعت کا کیا کریں

تحریر:وسعت اللہ خان، بشکریہ: ایکسپریس نیوز

اس وقت ڈیجیٹل معیشت کا عالمی حجم بارہ ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔یعنی ساڑھے پندرہ فیصد عالمی معیشت ڈیجیٹل ہے اور اگلے پندرہ برس میں اندازہ ہے کہ لگ بھگ پچاس فیصد معیشت ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر کھڑی ہو گی۔روایتی شعبوں کے روایتی دماغوں کے لیے بھلے یہ اچھی خبر نہ ہو مگر دنیا کسی کے بدلنے کے انتظار میں اپنی راہ تھوڑا کھوٹی کرتی ہے۔

اس کایا کلپ کو پانچواں انقلاب بھی کہا جاتا ہے اور صنعتی انقلاب کی جگہ لینے والا یہ انقلاب نئے علوم اور ان کی مہارت کی بنیاد پر کھڑا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کوویڈ کی مارا ماری کے دو برس کے دوران ہر شعبہ پسپا ہوا سوائے ڈیجیٹل انقلاب کے۔بلکہ یہ بیماری ڈیجیٹل معیشت کے تیز رفتار فروغ کے لیے ایک نعمت ثابت ہوئی۔

پاکستان جہاں گزشتہ چار برس سے معیشت کے ہر شعبے کو کسی کی نظر لگی ہوئی ہے۔ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور اس کی برآمد واحد شعبہ ہے جس نے حیرت انگیز ترقی کی ہے اور سفر مسلسل جاری ہے۔پاکستان معیارِ زندگی کی عالمی انڈیکس میں بھلے سب سے نچلے پائدانوں پر ٹکا ہوا ہے لیکن قبولیتِ عامہ کے سبب چوٹی کے ان دس ممالک میں شامل ہے جہاں ڈیجیٹل خواندگی میں اضافے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

اس وقت بائیس کروڑ میں سے دس کروڑ آبادی ایسے فون استعمال کر رہی ہے جو انٹرنیٹ سے جڑے ہوئے ہیں۔ان میں ساڑھے چار سے پانچ کروڑ نفوس سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں سے واقف ہیں یا استفادہ کر رہے ہیں۔زیادہ تر نوجوان ہیں۔کوویڈ سے پہلے ڈیجیٹل رابطہ کاری بھلے شوق اور تعیش کے دائرے میں سمجھی جاتی ہو مگر اب یہ ایک بنیادی ضرورت بن گئی ہے۔

پہلی بار پاکستان کی ڈیجیٹل برآمدات نے گزشتہ ایک برس میں ڈھائی ارب ڈالر سے زائد کما کے دیے۔جب کہ مقامی ڈیجیٹل مارکیٹ کا حجم بھی اس عرصے میں بڑھ کے لگ بھگ ڈیڑھ ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی ( آئی ٹی ) کا شعبہ اپنی ترقی کے لیے دیگر شعبوں کو دی جانے والی سرکاری سبسڈی یا مراعات کے برعکس اپنی مدد آپ پر بھروسہ مند رہا ہے۔

اس وقت پاکستان میں چھ لاکھ سے زائد آئی ٹی پروفیشنلز ہیں۔ان میں سے تین لاکھ مختلف کمپنیوں اور اداروں سے وابستہ ہیں جب کہ باقی فری لانسر خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ آئی ٹی سے وابستہ پندرہ ہزار کمپنیاں سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں۔ان میں سے لگ بھگ چھ ہزار کمپنیاں اپنی مہارت اور سافٹ ویئر برآمد کر کے زرِ مبادلہ کما رہی ہیں۔

پاکستان میں آئی ٹی کی ترقی کے لیے چند برس قبل ایک علیحدہ وزارت قائم ہوئی جب کہ پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ بھی فعال ہے۔دو ہزار اٹھارہ میں پہلی قومی آئی ٹی پالیسی متعارف کروائی گئی۔اس میں یہ ہدف مقرر کیا گیا کہ سن دو ہزار پچیس تک پاکستان میں آئی ٹی کا صنعتی حجم بیس ارب ڈالر تک پہنچایا جائے گا۔ یہ اندازہ بھی لگایا گیا کہ اگر پالیسی پر اخلاص اور تسلسل برقرار رہے تو پاکستان کی آئی ٹی صنعت کا حجم ساٹھ ارب ڈالر تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

اس پالیسی کے تحت نوزائیدہ آئی ٹی انڈسٹری کو ٹیکس سے چھوٹ دی گئی۔سو فیصد ایکویٹی حاصل کرنے کی رعایت ملی اور ایکسپورٹ کے لیے انفرادی اور کمپنی کی سطح پر فارن کرنسی اکاؤنٹس کھولنے کی سہولت بھی ملی اور کہا گیا کہ ان اکاؤنٹس میں جو بھی رقم ہو گی اسے باہر لے جانے یا مقامی سطح پر مزید سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی کھلی آزادی ہو گی۔

اس پالیسی سے حوصلہ پا کر ہی سال دو ہزار بیس اکیس میں اس صنعت کے حجم میں سینتالیس فیصد اضافہ ہوا۔اتنی سالانہ بڑھوتری کی مثال کسی اور صنعت میں نہیں ملتی۔اسی طرح کی مراعات کے سبب انڈونیشیا ، ملائیشیا ، فلپینز اور ویتنام نے اپنے خزانے میں تیس سے چالیس ارب ڈالرسالانہ کا اضافہ کیا جب کہ بھارت میں تو اس انڈسٹری کا حجم دو سو ارب ڈالر کا ہندسہ پار کر چکا ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کسی پالیسی میں کوئی تسلسل نہ ہونے کے سبب صنعت ، ماہرین اور سرمایہ کار سمیت ہر اہم عنصر بے یقینی کے خلا میں معلق رہتا ہے۔کسی کو یقین نہیں ہوتا کہ جو وعدے کیے جا رہے ہیں وہ محض جاری حکومت کی زندگی تک ہیں یا آنے والے دور میں بھی اسی طرح برقرار رہیں گے۔چنانچہ آئی ٹی پالیسی کے ساتھ بھی وہی ہوا۔نئی حکومت نے آئی ٹی انڈسٹری اور اس سے وابستہ افراد کی آمدنی پر اعشاریہ پچیس فیصد ٹیکس لگا دیا۔اس کے سبب تین ارب ڈالر مالیت کے اس شعبے سے زیادہ سے زیادہ ساڑھے سات ملین ڈالر ٹیکس ہی مل پائے گا۔

اس وقت ایک پاکستانی کسان کی کمانے کی سالانہ صلاحیت چار سو ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ جب کہ آئی ٹی سے وابستہ ایک کارکن سالانہ پچیس سے چالیس ہزار ڈالر کما کے دے سکتا ہے۔یہ پیسے چونکہ اسٹیٹ بینک کے ذریعے آ رہے ہیں لہٰذا دستاویزی معیشت کا بھی حصہ ہیں۔

البتہ ہمارے ٹیکس بابو آج بھی ڈیجیٹل اکانومی کو اسی روایتی صنعت کی آنکھ سے دیکھ رہا ہے جس پر جتنا چاہے ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے۔حالانکہ نوزائیدہ ڈیجیٹل انڈسٹری کو روایتی مقامی صنعت کے بجائے گلوبل ولیج کی نگاہ سے دیکھنا ضروری ہے۔عام کارخانے کو کسی اور ملک میں منتقل کرنے کے لیے بھاری مشینری اکھاڑ کے منتقل کرنا پڑتی ہے۔جب کہ ڈیجیٹل انڈسٹری کی عالمی ہجرت بہت آسان ہے۔بس ایک لیپ ٹاپ بغل میں دبایا اور کسی ایسی جگہ چلے گئے جہاں نہ صرف مراعات زیادہ ہیں بلکہ حوصلہ افزائی بھی دو چند ہے۔اب انتخاب حکومت کو کرنا ہے کہ کیا وہ چند لاکھ ڈالر ٹیکس اکٹھا کرنا پسند کرے گی یا آئی ٹی ایکسپورٹ کے ذریعے آنے والے کروڑوں ڈالرز کے بہاؤ کو جاری رکھنے کے لیے خصوصی مراعات برقرار رکھنا پسند کرے گی۔

فی الحال آئی ٹی کے شعبے پر بہت معمولی ٹیکس لگایا گیا ہے۔ کل کلاں یہ زیادہ بھی تو ہو سکتا ہے۔اس طرزِ عمل سے پیدا ہونے والی بے یقینی سے اور تو کچھ نہ ہوگا البتہ جو نوجوان اس شعبے میں آنا چاہتے ہیں وہ کنفیوژن کا شکار ہو کر یا تو کوئی اور شعبہ ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے یا پھر دبئی ، انڈونیشیا ، ایستونیا ، پرتگال جیسے ممالک کا رخ کریں گے۔جہاں حکومتوں نے ان آئی ٹی پروفیشنلز کے لیے ڈیجیٹل نوماڈ ( خانہ بدوش ) کی ایک نئی ویزہ قسم متعارف کروائی ہے۔یعنی جتنے چاہے پیسے کمائیں۔انھیں باہر لے جائیں یا نہ لے جائیں۔

کہنے کو پچھلی چند سرکاروں سے لے کہ موجودہ حکومت تک سب ہی آئی ٹی کی صنعت جیسے کماؤ پوت کی ترقی کے لیے ملک بھر میں تیرہ آئی ٹی انڈسریل پارکس بنانے اور ان میں ضروری سہولتیں فراہم کرنے کے وعدے کی گردان کرتے رہے ہیں۔تاہم عملی کام اتنے برس گذرنے کے بعد بھی مکمل نہ ہو پایا۔

ایک اور بڑا مسئلہ معیاری تعلیم کے بحران کا ہے۔اس وقت آئی ٹی سے ہر اضافی ایک ارب ڈالر سالانہ کمانے کے لیے کم ازکم چالیس ہزار کوالیفائیڈ گریجویٹس کی ضرورت ہے۔مقامی سطح پر پچیس تا پینتیس ہزار گریجویٹس سالانہ پیدا ہو رہے ہیں مگر چار برس تک پڑھائی کرکے ڈگری حاصل کرنے کے باوجود ان میں سے محض ڈھائی سے تین ہزار نوجوان ہی اس قابل ہوتے ہیں جنھیں آئی ٹی کی جاب مارکیٹ قبول کر سکے۔

مطلب یہ ہوا کہ نصاب کو مسلسل اپ ڈیٹ کرنے اور یہ نصاب پڑھانے والے روایتی ذہن کے اساتذہ کو ترقی پر ترقی دینے کے بجائے فعال اور انڈسٹری سے جڑے ماہرین کو تعلیم کے شعبے میں اچھی تنخواہ پر لانے کی ضرورت ہے۔

مگر جو کاغذی فوجِ ظفر موج ان اداروں نے پیدا کر دی ہے۔اس کا کیا ہو۔چنانچہ آئی ٹی کی وزارت اور سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کی فنڈنگ سے اب پاکستان سافٹ ویئر ایسوسی ایشن ایسے بوٹ کیمپ منعقد کر رہی ہے جن میں ڈگری یافتہ لوگوں کو چھ ماہ کے اندر عملاً اس قابل بنایا جا سکے کہ وہ کسی کمپنی میں ملازمت کے اہل ہو سکیں۔

اس مقصد کے لیے آئی ٹی کی وزارت نے اگنائٹ کے نام سے مفت آن لائن کورسز بھی شروع کیے ہیں۔جب کہ خیبر پختون خوا پہلی صوبائی حکومت ہے جس نے آئی ٹی کے شعبے میں بلامعاوضہ آن لائن لرننگ کا پروگرام شروع کیا ہے۔مقصد یہ ہے کہ جو بچے مہنگے مہنگے اضافی کورسز میں داخلہ نہیں لے سکتے وہ ایسے آن لائن مفت پروگراموں سے فائدہ اٹھا کے اپنے لیے کچھ کر سکیں۔

Related Articles

Back to top button