’تعیناتی کا میثاق‘ مگر پہل کون کرے

تحریر:ماریہ میمن ، بشکریہ: اردو نیوز

ملک میں سیاسی عدم استحکام خطرناک سے خطرناک تر ہوتا نظر آ رہا ہے۔ حکومت مشکلوں سے اپنا وقت گزار رہی ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی بلکہ خاص طور پر عمران خان اِن کو ٹف ٹائم دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ پچھلے پندرہ روز ہی اتنے ہیجان سے پُر تھے کہ سسٹم کی بساط ہی الٹے جانے کی افواہیں عام تھیں۔ سیاسی مسائل نے معاشی مسائل کو مزید ہوا دی ہے۔ سرمایہ کاری جمود کا شکار ہے۔ مجموعی طور پر لوگوں کا نظام سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ زیادہ سے زیاد لوگ اب باہر منتقلی کی باتیں کر رہے ہیں۔ ان حالات میں اہل سیاست اور اہل دانش کو اپنے اپنے مفادات سے بڑھ کے تدبیر کرنی چاہیے۔

دیکھا جائے تو اس سارے منظر کے بیچ میں کردار ہے ایک تعیناتی کا۔ عمران خان یہ تعیناتی اپنی مرضی سے کرنا چاہتے تھے یا اگر ان کے ناقدین کی دلیل کو بھی سامنے رکھا جائے تو اس طرح کرنا چاہتے تھے جس سے ان کا سیاسی فائدہ ہو۔ ہر دو صورتوں میں عمران خان نے اپنے آپ کو ایک بند گلی میں محصور کر لیا تھا۔ ان کے سیاسی مخالفین نے ان کے اس پہلو کا فائدہ اٹھایا اور ان کے خلاف عدم اعتماد لا کر خود اقتدار میں آ گئے۔ عدم اعتماد میں پی ڈی ایم میں سب سے متنازع اور متضاد کردار ن لیگ کا رہا ہے۔ مولانا اور پیپلز پارٹی کے لیے تو یہ آسان فیصلہ تھا مگر ن لیگ کے اندر بھی شدید ردعمل تھا۔ ایسے وقت میں جب عمران خان کی مقبولیت کا گراف نیچے سے نیچے جا رہا تھا انہوں نے حکومت لے کر پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سال کا ذمہ بھی خود لے لیا۔ آج کے دن ان کو یہ اعتماد نہیں ہے کہ ایک سال بعد بھی الیکشن میں وہ کوئی مناسب کارکردگی دکھا پائیں گے۔

سوال یہ ہے کہ ن لیگ جو کہ ایک دوراندیش اور تجربہ کار سیاسی جماعت ہے، نے یہ آنکھوں دیکھی مکھی کیوں نگلی؟ اس کا جواب بھی اسی تعیناتی کے گرد گھومتا ہے۔ ان کے بقول انہوں نے عمران خان کے ہاتھوں ممکنہ تعیناتی کے اثرات سے بچنے کے لیے حکومت لینے کا فیصلہ کیا۔ جبکہ ان کے ناقدین کے بقول ان کا اقتدار لینا اس تعیناتی سے اسی طرح کا سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے جس کا الزام وہ عمران خان پر لگاتے رہے ہیں۔ ہر دوصورتوں میں وہ بھی اس طرح بند گلی میں ہیں جس میں پہلے عمران خان تھے۔ جبکہ اضافی طور پر عوام میں ان کے بیانیے کو بھی وہ پذیرائی نہیں مل رہی جو پی ٹی آئی اور عمران خان نے ابھی تک قائم رکھی ہوئی ہے ۔ اوپر سے ان کو عمران خان کی مہم کے جواب میں ایسے اقدامات بھی کرنے پڑ رہے جن کو ماضی میں تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور مستقبل میں جو ان کے لیے طعن و تشنیع کا باعث بنیں گے۔

ان سارے حالات میں ہر سیاسی جماعت نے اپنے آپ کو کارنر کیا ہے، نظام پہلے سے زیادہ کمزور ہوا ہے اور خود اسٹیبلشمنٹ کو اس ردعمل کا سامنا ہے جس کی اب تک نظیر نہیں ملتی۔ اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ مسئلہ مستقبل قریب میں خوش اسلوبی سے حل ہو جائے۔ حکومتی حمایتی یہی کہیں گے کہ آئین میں اس کا حل موجود ہے اور اسی کو فالو کیا جائے۔ آئین کے مطابق تو ظاہر ہے کہ یہ حکومت کی صوابدید ہے مگر یہی بات تو اصل میں سمجھنے کی ہے۔ اسی صوابدیدی اختیار سے ہی تو اتنے سارے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ مسائل پیدا بھی سیاستدان کرتے ہیں اور ان کے پاس ہی اس کا حل بھی ہوتا ہے۔ عمران خان نے اسی پیرائے میں بات چیت کی بھی آفر کی مگر ایک تو انہوں نے اپنی آفر کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور دوسری طرف حکومت نے بھی فورا ہی جارحانہ پوزیشن لے لی۔ ورنہ اب بھی صدر پاکستان کا آئینی عہدہ موجود ہے جن کو اعتماد میں لیا جا سکتا ہے۔

سوال البتہ یہ بھی ہے کہ اس مسئلے کا مستقل حل کیسے نکالا جائے؟ یہ حل ہے ایک نئے میثاقِ تعیناتی میں۔ بات صرف اس بار کی نہیں، آئندہ بھی ملکی سیاست اسے طرح تعیناتی کو لے کو دوراہوں پر رہے گی۔ اس لیے سب سے پہلے اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ اس تعیناتی کے صرف ریاستی ہی نہیں سیاسی مضمرات بھی ہیں۔ ان سیاسی مضمرات کو سیاستدان بیٹھ کر ہی ایڈریس کر سکتے ہیں۔ اس سے غیر جانبداری یا نیوٹرل ہونے کا لائحہ عمل بھی طے ہو سکتا ہے اور قومی مفاد کو برقرار رکھتے ہوئے اداروں کے آئندہ کردار پر بھی گفتگو ہو سکتی ہے۔

گزشتہ دنوں سامنے آنے والی لیکس اور مشکوک ویڈیوز نے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ اسی میثاق میں ان حدود کا بھی تعین ہونا چاہیے جہاں پر سیاست اور ریاست میں فرق برقرار رہے۔ اس طرح کے میثاق میں سب کا ہی فائدہ ہے اور سب سے زیادہ ملک اور اس کے نظام کا۔ سوال صرف یہ ہے کہ اس کے لیے پہل کون کرے؟

Related Articles

Back to top button