سالگرہ کی تقریب اور زمانے کی بے قدری

تحریر: عطا الحق قاسمی ، بشکریہ : روزنامہ جنگ

ایک ہفتہ پہلے یکم فروری کو میں 80برس کا ہو گیا ہوں چنانچہ صبح اٹھتے ہی میں آئینے کے سامنے کھڑا ہوا اور ان تمام اعضاکو مبارک باد دی جو 80برس کے ہوگئے ہیں اور تاحال ورکنگ کنڈیشن میں ہیں اور ان اعضا کو خوب جلی کٹی سنائیں جو کام کرنا چھوڑ گئے ہیں۔ اپنے گھٹنوں کو تو میں نے دوچار ’’چپڑیں‘‘ بھی لگائیں جن کی ہڈحرامی کی وجہ سے مجھے واکر اور وہیل چیئر استعمال کرنا پڑ گئے ہیں تاہم میرے تینوں بیٹوں یاسر پیرزادہ ،عمر قاسمی اور علی قاسمی کی خوشی دیدنی تھی کہ انہوں نے اس موقع پر ایک یادگار تقریب کا اہتمام کیا، میری اہلیہ کی یہ 76ویں سالگرہ تھی اور ہم دونوں کی ڈیٹ آف برتھ ایک ہفتے آگے پیچھے ہے چنانچہ بیٹوں نے ’’اجتہاد‘‘سے کام لیتے ہوئے ہم دونوں کی سالگرہ ایک ہی دن منائی !

سچی بات یہ ہے کہ اس روز بہت دنوں کے بعد میں ایک سر خوشی کے عالم میں تھا ۔ میرے بچپن کے دوست مسعود علی خان اور شیخ اکبر عالم (اکی) نیز یونیورسٹی فیلو تسنیم نورانی دوسرے دوستوں کی طرح میرے لئے بہت بھاری بھر کم گلدستے لائے اتنے ہی بھاری بھر کم جتنے بھاری بھر کم مقامات پر وہ فائز ہیں اور پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ جناب محسن نقوی بھی میرے اور میرےاہلخانہ کی خوشیوں میں شریک ہونےکے لئے تقریب کی رونق بنے ۔وہ میرے اور میری اہلیہ روبی شہناز قاسمی کے ساتھ صوفے پر ایسے بیٹھے تھے جیسے دو لہا اور دلہن کے درمیان بیٹھے ہوں۔یہ بہت خوشی کا مقام تھا کہ مجیب الرحمٰن شامی ، فواد حسن فواد، سہیل وڑائچ، حفیظ اللہ خان نیازی ،سرور سکھیرا، نوید چودھری ، ڈاکٹر زاہد پرویز، پروفیسر مظہر سلیم، حماد غزنوی، وجاہت مسعود، اصغر ندیم سید، نجم ولی خان، شعیب بن عزیز، توفیق بٹ، سلمیٰ اعوان، صغریٰ صدف، جواد شیرازی، عباس تابش، قمر رضا شہزاد، غافر شہزاد، صوفیہ بیدار، ڈاکٹر عائشہ عظیم، شاہدریاض گوندل، ڈاکٹر ضیاالحسن،حمیدہ شاہین، عزیراحمد، ڈاکٹر نجیب جمال، فرحت زاہد،نذیر قیصر،اجمل شاہ دین، گل نوخیز اختر، اقتدار جاوید اور ڈاکٹر اشفاق ورک کے علاوہ بیسیوں دوسرے اہل قلم شریک محفل ہوئے اور ہاں اپنے شیخ اعجاز احمد بھی تو ہمارے درمیان موجود تھے ۔اس کے علاوہ درجن سے زیادہ ان اہل قلم خواتین و حضرات کا شکریہ جو مختلف شہروں میںربع صدی سےاپنے گھروں میں میری سالگرہ کا کیک کاٹتے ہیں ۔

وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا ،یہ کل کی بات ہے میں احمد ندیم قاسمی کی 80ویں سالگرہ میں ان پر مضمون پڑھ رہا تھا جس کا ایک فقرہ سبحان اللہ اور ان شااللہ بہت مشہور ہوا تھا۔ میری سالگرہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ طے پایا تھا کہ کسی اہل قلم دوست کو اظہار خیال کی زحمت نہیں دی جائے گی،بس میں ایک مختصر سا مضمون پڑھوں گا مگر صرف دو جملوں کے بعد میری ہنسی نکل گئی اور مضمون ’’مکمل‘‘ ہو گیا مگر تقاریر کی کمی کو تقریب کے اختتامی حصے میں ڈنر کی ’’اہم مصروفیت‘‘ سے فراغت کے بعد مجیب الرحمٰن شامی اور شاہد ریاض گوندل کی موجودہ ملکی صورتحال کے حوالے سے طویل اور بہت مفید مکالمے نے پورا کر دیا ،اس گفتگو نےبہت مزادیا۔شامی صاحب اس وقت شاید واحد صحافی ہیں جو ماضی کے نامور صحافیوں کی طرح ادب سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں، ان کی احمد فراز سے بھی بہت دوستی رہی ہے جب کہ شاہد ریاض گوندل نہ صحافی ہیں اور نہ شاعر مگر بہت پڑھے لکھے ہیں اس کے باوجود شامی صاحب کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے مگر مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا اور یہ یادگار مکالمہ رات ساڑھے دس بجے تک جاری رہا ۔

متذکرہ تقریب میری اور میری اہلیہ کی ڈیٹ آف برتھ سے کچھ آگے پیچھے منعقد کی گئی تھی تاہم ٹھیک یکم فروری کو نامور اینکر فائزہ بخاری نے ڈاکٹر عائشہ عظیم اور ان کے شوہر فرخ صاحب ، عزیر احمد اور ابرارندیم کو میرے دفتر میں مدعو کیا اور میری سالگرہ کا کیک کاٹا ،یہ کیک بہت یونیک تھا اور سپیشل آرڈر پر بنوایا گیا تھا۔ ان دونوں تقاریب کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ میں بہت اہم ہوں مگر اس بات کا افسوس رہا کہ تمام اخبارات نےاس روز میری زندگی اور خدمات کے حوالے سے اسپیشل ایڈیشن شائع کیوں نہیں کئے۔ بی بی سی اور وائس آف امریکہ کو کیا موت پڑ گئی تھی کہ کوئی خصوصی پروگرام نشر نہیں کیا ،اگر اقبال کے یوم پیدائش پر عام تعطیل کا اعلان کیا جاسکتا ہے تو آخرمجھ میں کیا کمی ہے ،جو مجھے اس اعزاز سے محروم رکھا گیا ،کسی سے کیا گلہ بڑے لوگوں کی یہ بے قدری ہر دور میں ہوئی ہے مگر میری دفعہ نہ ہوتی تو کیا حرج تھا ۔

Related Articles

Back to top button