’یو ٹرن تو اچھے ہوتے ہیں‘

تحریر:عاصمہ شیرازی، بشکریہ : بی بی سی اردو

معجزے ہوا کرتے ہیں اور اعجاز دکھانے والے اس کے مظاہرے بھی سرعام کرتے ہیں۔ سیاست کے کھیل میں مگر معجزے کم اور سائنس زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ پنجاب کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے حالیہ ضمنی انتخابات میں جو سائنس استعمال ہوئی اُس کے سادہ فارمولے نے دو جمع دو پانچ کر دکھایا۔

ہو سکتا ہے کہ محض اتفاقات کی اس دُنیا میں انھونی کو ہونی میں بدلنے والے الجبرے کے فیثا غورثی اصول طے پا گئے ہوں یا عمران خان صاحب کی شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگ گیا ہو، یا خان صاحب کے ستارے اوجِ ثریّا سے بھی اوپر چمکنے لگے ہوں، مقبولیت کے تمام گراف، اعداد اور اشاریے گنتی بھول گئے ہوں مگر جو ہوا وہ کہیں نہ کہیں مقبولیت سے بالاتر ہے۔

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ن لیگ کا صفایا ایسے ہوا ہے جیسے برسوں پہلے پیپلز پارٹی کا پنجاب میں ہوا تھا۔ یہ محض اتفاق ہی ہو گا کہ ن لیگ بیانیے اور کارکردگی کے محاذ پر تین ماہ میں وہاں آ کھڑی ہوئی جہاں پہلے تحریک انصاف کھڑی تھی۔ اب ن لیگ لاکھ کہے کہ یہ تو ہمارے حلقے ہی نہ تھے مگر سچ یہی ہے کہ چند ماہ پہلے تک لگاتار ضمنی انتخابات جیتنے والی جماعت بلآخر زندگی موت کے درمیان یہ معرکہ ہار گئی۔ایک انھونی 22 مئی کو بھی ہوئی جب عمران خان نے اچانک لانگ مارچ کا فیصلہ کیا جو کسی کی رضا تھی یا ٹریپ، اس کا اندازہ نتیجے سے لگایا جا سکتا ہے۔

اُدھر شہباز شریف 23 مئی کی شام کو پی ٹی وی کے ذریعے قوم کو استعفے اور عام انتخابات کی خبر دینے کی تیاری کر چکے تھے کہ عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا اور پھر نواز شریف نے شہباز شریف کو نہ صرف الوداعی تقریر سے روکا بلکہ ڈٹ جانے کا پیغام بھی دیا اور یوں عمران خان عام انتخابات کی یہ اہم کامیابی سمیٹنے سے محروم ہو گئے جبکہ لانگ مارچ کے غبارے سے ہوا بھی نکل گئی۔

کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ غیر مقبول فیصلوں کے بدلے تسلسل یقینی بنانے کی ’ضمانت‘ والے ہاتھ مصلحتاً یا ارداتاً کھینچ لیے گئے۔ اور یہ بھی محض اتفاق کہ نواز شریف کا مزاحمتی بیانیہ عمران خان لے اُڑے اور راتوں رات اسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیے پر جیت کی مُہر ثبت کر دی اور اب دائیں بائیں سے طاقت کے مرکز پر حملے ہو رہے ہیں۔ اتفاقات کی اس دُنیا میں قسمت کے دھنی صرف عمران خان ہی ہیں کہ کل تک طاقتور حلقوں کے گُن گاتے تھے اور آئی ایس آئی چیف سے لے کر آرمی چیف تک اور چیف جسٹس سے لے کر سابقہ چیف تک اُن کے ہی صفحے پر تھے اور وزیراعظم کی کُرسی سے اُترنے کے بعد ایک دن بھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ اقتدار کے اس کھیل سے کبھی باہر بھی ہوئے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ اب بھی جب چاہیں، جہاں چاہیں کہیں بھی کھڑے ہو کر کسی کو الزامات کا نشانہ بنا سکتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی طاقت کا مرکز ہیں اور آنے والے دنوں میں وہی اصل اسٹیبلیشمنٹ بھی ہوں گے۔ چیف الیکشن کمشنر پر حالیہ حملے کسی اور گراؤنڈ کی تیاری ہے یا فارن فنڈنگ کیس میں دباؤ بڑھانے کا طریقہ اس بارے میں بھی فیصلہ اُن کے حق میں ہوا تو محض اتفاق ہی ہو گا۔ بہرحال محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے راستے کی شاید آخری دیوار چیف الیکشن کمشنر ہی ہیں جس کے بعد ’گلیاں ہو جانڑ سنجھیاں تے وِچ مرزا یار پھرے۔عمران خان صاحب اپنے بہترین میڈیا، سوشل میڈیائی ہتھیاروں سے لیس اپنے اہداف کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ادارے اب شدید دباؤ کا شکار ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ضمنی انتخابات سے چوبیس گھنٹے قبل ایک ہنگامی آزادی صحافت سیمینار میں اُنھوں نے ’جرنیلوں کے یوٹرن کو اچھا‘ قرار دے کر ’واپسی پر کچھ نہیں کہا جائے گا‘ کا پیغام بھی دے دیا ہے۔

اب ہو سکتا ہے کہ عمران خان 29 نومبر کی تاریخ سے پہلے دو تہائی اکثریت کے وزیراعظم بننے کا ہدف بھی حاصل کر لیں اور اپنی مرضی کا آرمی چیف بھی تعینات کر دیں جبکہ اس دوران مشکل معاشی فیصلے حکمران اتحاد کرتا رہے اور غیر مقبول بھی ہوتا رہے۔ جمہوری ریاستوں میں وزیراعظم منتخب ہوتے ہیں مگر وطن عزیز میں آرمی چیف منتخب کرنے کے لیے وزیراعظم تعینات ہوتا ہے اور عمران خان صاحب اب اس طاقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ آخری خبریں آنے تک حکمران اتحاد آئینی مدت پوری کرنے پر ڈٹ گیا ہے اب خدا جانے کس کے ستارے خروج پر ہوں اور کس کے عروج پر۔۔۔ آپ بس اتفاقات پر نظر رکھیے۔

Related Articles

Back to top button