نواز سے شہباز شریف تک: جنرل قمر جاوید باجوہ کا بطور آرمی چیف چھ سالہ دور کیسا تھا؟

تحریر:ماجد نظامی

بشکریہ: بی بی سی اردو

’اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔۔۔‘ لکھنے اور سننے میں یہ روایتی سا فقرہ لگتا ہے لیکن واقعتاً آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے چھ سال کے دور میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

ملک کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف اقتدار میں آئیں اور گئیں۔ اس دوران جنرل باجوہ کو پانچ وزرائے اعظم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں سے چار منتخب اور ایک نگران وزیر اعظم تھے۔

امریکہ، چین اور سعودی عرب سے تعلقات، کرتار پور راہداری اور عالمی دوروں کے ذریعے فوجی سفارتکاری کا تصور بھی سامنے آیا۔

’محکمہ زراعت‘ کی اصطلاح بھی اس دور کی ایجاد ہے جبکہ عمران خان کی حکومت جانے کے بعد ایسے ناموں کا تکلف بھی جاتا رہا اور فوج کو براہ راست مخاطب کیا جانے لگا۔

سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا یہ فقرہ بھی مشہور ہوا کہ ’2018 تبدیلی کا سال ہے۔‘

میڈیا میں ’فرینڈلی ایڈوائس‘ یعنی دوستانہ نصیحت اور مثبت رپورٹنگ کا چرچا رہا۔ جنرل باجوہ کے پہلے تین سال میں پانامہ کیس، ڈان لیکس، بلوچستان حکومت کی تبدیلی، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر معاملات میں مسلم لیگ ن مشکلات کا شکار رہی۔

دوسری طرف اسی عرصہ میں پسندیدہ تصور کی جانے والی تحریک انصاف نے 2022 میں وہ سفر ایک ہی سال میں طے کر لیا جو مسلم لیگ ن کو طے کرنے میں کئی سال لگ گئے تھے۔

تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں ہی ان چھ سال میں کبھی محبوب اور کبھی معتوب رہیں۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے چھ سالہ دور کے سیاسی اثرات پر بی بی سی نے ملک کی دو بڑی جماعتوں کے ان رہنمائوں کی رائے جاننے کی کوشش کی جو اقتدار اور اپوزیشن دونوں میں اپنی پارٹی قیادت کے قریب سمجھے جاتے رہے۔

ان کے ساتھ سینیئر دفاعی تجریہ کاروں کی آرا کو بھی شامل کیا گیا تاکہ چھ سالہ دور کے حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے لائے جا سکیں۔

آرمی چیف بننے سے پہلے جنرل باجوہ کے افکار

2016 میں جب جنرل باجوہ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف بنے تو ان کی تقرری کسی سرپرائز سے کم نہیں تھی۔

وہ سنیارٹی کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر تھے اور انھیں فیورٹ نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے خود انھیں اس عہدے کے لیے چنا تھا۔

ان کی مدت ملازمت صرف نومبر 2019 تک تھی لیکن بعد میں تحریک انصاف حکومت میں انھیں تین سال کی توسیع مل گئی۔

سیاسی تجزیہ کار امتیاز گل بتاتے ہیں کہ ’پاکستان میں آرمی چیف کا انتخاب ہمیشہ سے سیاسی فیصلہ رہا ہے، آرمی چیف کا تقرر کبھی بھی پیشہ ورانہ بنیادوں پر نہیں ہوتا اور جنرل باجوہ کی تقرری بھی اسی سلسلے کی ایک مثال تھی۔‘

مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے بتایا کہ ’جب 2016 میں میاں نواز شریف نے آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ کرنا تھا تو مشاورت کے عمل میں میرا ووٹ جنرل باجوہ کے حق میں ہی تھا۔ آرمی چیف بننے سے پہلے کئی اہم معاملات پر ان کی سوچ اور گفتگو منفرد تھی۔‘

’منتخب افراد کی بالادستی، جمہوری حکومتوں کو فیصلہ سازی کا اختیار، نان سٹیٹ ایکٹر ز کی حوصلہ شکنی، انڈیا سے دائمی دشمنی پر نظر ثانی، ان موضوعات پر ان کی سوچ عمومی رائے کے برعکس تھی۔‘

دوسری طرف سینیئر دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کی رائے اس سے بالکل برعکس ہے۔

ان کے مطابق ’جنرل باجوہ کے متوازن سیاسی نظریات کا مصنوعی تاثر بنایا گیا تھا۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ چھ سال میں جنرل باجوہ نے اس حوالے سے عملی کام نہیں کیا۔‘

جنرل باجوہ کی سوچ بمقابلہ ادارے کا دباؤ

جنرل باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد کے حالات پر سینیٹر عرفان صدیقی کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں کہ آرمی چیف بننے کے بعد جنرل باجوہ اپنے تمام تر منفرد نظریات کے باوجود ادارے کی سوچ میں ڈھلتے چلے گئے۔

’جنرل باجوہ کی سوچ اور ادارے کے نظریات میں فرق تھا اور اس دوران جنرل باجوہ کی انفرادی سوچ بڑی حد تک کم ہو گئی۔‘

’سیاسی بالا دستی، انڈیا سے تعلقات اور سیاست میں مداخلت کے حوالے سے جنرل باجوہ ادارے کی سوچ اور نظریات کے سامنے بند نہ باندھ سکے اور اسی رو میں بہہ نکلے۔‘

ڈاکٹر عائشہ کے مطابق ’میں نہیں سمجھتی کہ وہ آرمی چیف بننے سے پہلے کچھ اور تھے اور بعد میں تبدیل ہو گئے۔ جنرل باجوہ خطرات مول لینے والے (Risk Taker) نہیں بلکہ ایک روایت پسند جنرل تھے جنھوں نے ادارے کی پرانی پالیسیوں پر ہی عمل کیا۔‘

عرفان صدیقی کی رائے میں جنرل مشرف کے معاملے پر بھی جنرل باجوہ نے آئین و قانون کا راستہ اپنانے کی بجائے ادارے کی سوچ کو اپنایا۔

’جنرل باجوہ کے دور میں میڈیا کو خاص سانچے میں ڈھالا گیا، آزاد میڈیا کا گلا گھونٹا گیا، اس کا رخ موڑا گیا۔ مزید یہ کہ کچھ لوگوں کو تیر دے کر کمیں گاہوں میں بٹھا دیا گیا اور وہ اختلاف رکھنے والوں کو نشانہ بناتے رہے۔ یہ سب کچھ جنرل باجوہ کی نگاہوں کے سامنے ہوتا رہا۔‘

الیکشن 2018: جنرل باجوہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں کے نشانے پر

مسلم لیگ ن کے عرفان صدیقی واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ ’2011 میں لاہور کے جلسے کے بعد جو بیج بونے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا اور اس پودے کی نشوونما کی جا رہی تھی۔ اس کی پرورش سے جنرل باجوہ نے انحراف نہیں کیا۔‘

’شاید اس میں ان کی رضا کارانہ مرضی نہ ہو لیکن عمران خان کو جیسے تیسے اقتدار میں لانے کی ادارے کی سوچ کے آگے بند نہ باندھ سکے۔ جنرل باجوہ کے چھ سالہ دور میں کئی شائستہ حدود پامال ہوئیں اور مداخلت بے حجاب اور سر عام ہو گئی۔ ایسا نہیں کہ ماضی میں سیاست میں مداخلت نہیں ہوتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ ایسی مداخلت ڈھکی چھپی ہوتی تھی لیکن ان چھ سال میں سب کچھ بے پردہ ہو گیا۔‘

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی رائے میں ’مسلم لیگ ن کی حکومت کی بجائے عمران خان کو اقتدار میں لانے میں جنرل باجوہ کا اہم کردار تھا۔ پوری فوج الیکشن 2018 میں عمران خان کے ساتھ کھڑی تھی اور اس کے لیے ہر طرح کی راہ ہموار کی گئی۔‘

تحریک انصاف کے افتخار درانی یکسر مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جنرل باجوہ کے پہلے تین سال میں تحریک انصاف کی حمایت اپوزیشن کا الزام تو ہو سکتا ہے لیکن تحریک انصاف 2018 کے الیکشن میں پہلے ہی وننگ پوزیشن میں آ چکی تھی۔

’اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ پارٹی کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ ہو سکتا ہے کہ ادارے نے اپنے مفاد کے لیے کچھ کیا ہو کیونکہ ہمارے معاشرے میں ملٹرائزیشن آف پالیٹکس بھی ایک حقیقت ہے۔‘

افتخار درانی کے مطابق ’الیکشن میں بھی 15 سے 20 نشستوں پر ہم معمولی فرق سے ہار گئے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمیں اتحادیوں کی ضرورت نہ پڑتی۔ الیکشن جیتنے کے بعد بھی مسلم لیگ ق، اختر مینگل، ایم کیو ایم اور دیگر اتحادی خود ہمارے پاس آئے کیونکہ ہم جیت چکے تھے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کسی نے ان کو ہماری طرف بھیجا۔‘

جنرل باجوہ اور عمران خان

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما افتخار درانی نے جنرل باجوہ کے نام کی بجائے ان، ادارے اور سسٹم کے الفاظ زیادہ استعمال کیے۔

افتخار درانی کی رائے کے مطابق ’سسٹم، اداروں کی پوزیشن اور عمران خان کی پوزیشن میں بنیادی فرق عمران خان کی کرپشن کے خلاف مہم کا تھا۔‘

’سسٹم نے اس کو قبول نہیں کیا کیونکہ سسٹم اشرافیہ کے لیے کام کرتا ہے اور عمران خان نے اس رویے کو چیلنج کیا۔کرپشن کے خلاف مہم کے دوران سسٹم عمران خان کو ہاں تو کر رہا تھا لیکن مزاحمت بھی جاری تھی۔ چونکہ سسٹم اور ادارے اس اینٹی کرپشن مہم کو سپورٹ نہیں کر رہے تھے اس لیے شریف فیملی اور دیگر سیاسی رہنمائوں کو اس دوران سہولت ملتی رہی۔‘

ان کے مطابق دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ ’سسٹم اس چیز کا عادی نہیں تھا کہ اعلی عہدے پر فائز کوئی شخصیت کیمرے کے سامنے اور کیمرے کے بغیر بھی ایک ہی جیسا مؤقف رکھتی ہو۔‘

’سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ ایسا وزیر اعظم آیا جس کے خیالات اور پالیسی بند کمروں میں بھی وہی ہوتی تھی جو عوام کے سامنے ہوتی تھی۔‘

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے خیال میں ’پہلے دن سے عمران خان میں اہلیت کے مسائل تھے۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے ان کو اسٹیبلشمنٹ حکومت میں لے کر آئی کیونکہ عمران خان عوام میں مقبول اور دیگر سیاسی رہنماؤں کے برعکس نظریاتی طور پر ادارے کے افکار کے حامی بھی تھے۔ تحریک انصاف حکومت کے آغاز سے ہی عمران خان کی بجائے جنرل باجوہ ہی اہم معاملات کو چلا رہے تھے۔‘

افتخار درانی ایک اور منفرد نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’عمران خان کی عالمی مقبولیت اور بین الاقوامی دوروں میں پذیرائی کی وجہ سے پہلی مرتبہ ایسا سیاسی رہنما سامنے آیا جس کا قد کاٹھ آرمی چیف سے بڑا تھا۔ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا اس لیے ادارے نے محسوس کیا کہ موجودہ وزیراعظم ہم سے زیادہ قد آور ہے۔‘

لیفٹیننٹ جنرل (ر)امجد شعیب کی رائے میں ’باقی اداروں کی طرح آرمی کا کام بھی تجاویز دینا اور نشاندہی کرنا ہوتا ہے۔ جنرل باجوہ کے کئی تحفظات درست بھی تھے۔ اگر کہیں یہ سوچ موجود تھی کہ عمران خان ناتجربہ کار تھے یا اہلیت کا مسئلہ تھا تو ان کی انگلی چھوڑ دینی چاہیے تھی۔‘

’اگرچہ عدم اعتماد ایک آئینی عمل ہے لیکن تاثر یہی ہے کہ باہر سے بھی سپورٹ آ رہی تھی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ عمران خان کو نااہلی یا نا تجربہ کاری کی کوئی سزا بھی دی جاتی۔‘

دوسری طرف عرفان صدیقی کے خیال میں ’جنرل باجوہ کے پہلے تین سال میں اگرچہ وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل کیا گیا، اس کے باوجود ان کے پہلے تین سال بعد کے تین سال سے بہتر تھے۔ بعد کے تین سال میں فوج کے وقار، عزت، قدر و منزلت میں کمی آئی اور سرعام گالیاں بھی سنائی گئیں۔‘

’اس لیے جنرل باجوہ کے عہد کو مختلف نہیں سمجھتا کیونکہ ان کے دور میں بھی سیاستدانوں میں کسی کو محبوب اور کسی کو معتوب رکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔‘

عمران حکومت کی رخصت :کیا جنرل باجوہ بھی ذمہ دار تھے؟

عمران خان حکومت جانے سے کچھ دن پہلے اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے مسلم لیگ قاف کے رہنما چوہدری پرویز الہی کے بیان نے ہلچل مچا دی کہ ’بچے کو نیچے اُتارو گے تبھی وہ سیکھے گا‘ اور ’ساری زندگی نیپیاں ہی بدلتی رہنی ہیں۔‘

اس وقت انھوں نے دبے الفاظ میں عمران خان پر احسان فراموشی کا الزام بھی لگایا لیکن وزارت اعلیٰ ملنے کے بعد بہت کچھ بدل گیا۔ جنرل باجوہ کے دور میں آنے والی عمران حکومت اسی دور میں ہی ختم ہو گئی جس پر تحریک انصاف کے کارکن اور رہنما کبھی دبے الفاظ اور کبھی واضح الفاظ میں جنرل باجوہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق عمران خان کی حکومت آنے اور جانے دونوں میں جنرل باجوہ کا بالکل کردار ہے۔

’بنیادی مسئلہ عمران خان کی نا اہلی، نا تجربہ کاری یا عالمی سازش نہیں تھی بلکہ عمران خان نے بے ڈھنگے طریقے سے مداخلت کرنا شروع کر دی تھی۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے تبادلے پر سب کچھ کھل کر سامنے آ گیا۔‘

اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنما افتخار درانی ایک گریٹ گیم کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ’عمران خان اسلاموفوبیا کے خلاف بھی توانا آواز بن کر سامنے آئے۔ عالمی دوروں میں یہ معاملہ سر فہرست ہوتا تھا۔ ان کا یہ مؤقف بھی رجیم چینج کی وجوہات میں سے ایک تھا۔‘

’خارجہ پالیسی پر عمران خان کی پوزیشن اور خصوصاً روس کی طرف جھکاؤ کا اداروں کی جانب سے خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ مصر کے صدر محمد مرسی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ عالمی طور پر بھی سٹیٹس کو کے خلاف کھڑی ہونے والی شخصیات کو اقتدار سے نکال دیا جاتا ہے کیونکہ عالمی طاقتیں خصوصاً امریکہ اپنے مفاد کے لیے کام کرتا ہے۔‘

’عالمی سازش کے ساتھ ساتھ رجیم چینج کے حوالے سے ڈیپ سٹیٹ اور لوکل ایکٹرز کا جھکاؤ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ افغان امن عمل کے بعد جب ان کو کہا گیا کہ رجیم چینج ہو رہا ہے اور پیسے آ رہے ہیں۔ اس وقت سائفر بھی ہو چکا تھا، اس موقع پر بھی رائے کا اختلاف تھا۔ حالانکہ نیشنل سیکورٹی کونسل کی دو میٹنگز میں آیا کہ سائفر ایک حقیقت ہے اور سازش ہوئی۔ اس کو روکنے کے حوالے سے مناسب اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ ان وجوہات کی بنا پر مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ عمران خان کے ساتھ بھی ایسا ہو گا۔‘

جنرل امجد شعیب کے خیال میں ’جنرل باجوہ اپنے دور کے آخر میں غیر مقبول ہوئے۔ رجیم چینج کے معاملے میں گر بڑ ہوئی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں جنرل باجوہ کا بھی کوئی کردار ہے۔ اس تاثر کی وجہ سے آرمی کو دفاعی پوزیشن پر جانا پڑا اور وضاحتیں دینا پڑیں۔‘

دوسری طرف اس حکومتی تبدیلی پر عرفان صدیقی کا مؤقف ہے کہ ’شریف فیملی کے حوالے سے ادارے کی سوچ میں تبدیلی آئی یا نہیں لیکن اس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ عمران خان کا تجربہ کرنے والے کرتا دھرتا مایوس ہو چکے تھے۔‘

’جب عمران خان نے فوجی تقرریوں پر اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش کی تو ان کو لانے والوں کی آنکھوں میں موجود خواب چکنا چور ہو گئے۔ یہ عہد زوال تھا اور عمران خان کو لانے والوں کا تجربہ ناکام ہو چکا تھا۔‘

’دوسری طرف میاں نواز شریف نے تمام تر اختلاف کے باوجود وہ رویہ اختیار نہیں کیا تھا جو عمران خان نے کیا۔ نواز شریف نے پرویز رشید، طارق فاطمی اور مشاہد اللہ خان پر کڑوا گھونٹ پی لیا تھا جبکہ عمران خان نے سیاسی معاملات سے آگے بڑھ کر فوجی معاملات میں مداخلت کرنا شروع کر دی تھی۔ ادارے کی شریف فیملی کے حوالے سے سوچ میں تبدیلی نہیں آئی بلکہ عمران خان کا تجربہ بری طرح ناکام ہو گیا۔‘

جنرل امجد شعیب کے مطابق ’اگر عمران خان کی حکومت بنائی جا سکتی تھی، مختلف اہم مواقع پر بچائی جا سکتی تھی تو عمران حکومت کو گرنے سے روکا بھی جا سکتا تھا۔ پی ڈی ایم جماعتوں سے عوام کے اختلاف اور نفرت کا نشانہ فوج بھی بن گئی۔‘

عدلیہ پر اثر و رسوخ اور پسند کے فیصلے

مسلم لیگ ن کے عرفان صدیقی سمجھتے ہیں کہ جنرل باجوہ کے دور میں عدالتوں پر بھی کسی نہ کسی طریقے سے اثر انداز ہونے کی کوشش ہوئی۔

’ان کے دور میں نا پسندیدہ اور نا مطلوب افراد کے خلاف فیصلے لینے اور پسندیدہ افراد کے حق میں فیصلے کروانے کے لیے عدالتوں کو استعمال کیا گیا۔ بڑی عدالتوں کو بھی استعمال کیا گیا، کئی جج صاحبان کی گواہیاں بھی آئیں۔ یہ بہت افسوسناک پہلو تھا۔‘

آتے ہوئے نہیں بلکہ جاتے ہوئے توبہ

فوج کی جانب سے سیاست سے الگ ہونے کے بیان پر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ بہت واضح مؤقف رکھتی ہیں۔

ان کے مطابق ’جیسے عمران خان پہلے دن سے ہی نا اہل تھے، اس طرح جنرل باجوہ پہلے دن سے ہی سیاسی تھے اور اب بھی ہیں۔ سیاست سے کنارہ کش ہونے کے یہ اعلانات نا قابل اعتبار ہیں۔‘

فوج کے نیوٹرل اور اے پولیٹیکل ہونے کے اعلان سے متعلق عرفان صدیقی نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا کہ ’اب جنرل باجوہ کا آفتاب غروب ہو رہا ہے تو فوج کے سیاست سے تائب ہونے کا اعلان ہوا ہے۔ اگر جنرل باجوہ یہ فیصلہ 2016 میں کرتے تو اچھا تھا۔ اب سیاست کی دلدل میں دھنسنے کے بعد ایسا کیا جا رہا ہے۔ آنے والے آرمی چیف کے لیے بھی مشکل ہو جائے گا کہ وہ ایک ہی چھلانگ لگا کر اس سے باہر آ سکے۔‘

لیفٹیننٹ جنرل (ر)امجد شعیب کے مطابق ’نئے آرمی چیف کو عوام اور فوج میں دوریاں کم کرنے کے لیے خصوصاً کام کرنا ہو گا۔‘

ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ہو گا؟

لیفٹیننٹ جنرل (ر)امجد شعیب جنرل باجوہ کی نظر میں ان چند مہینوں میں جنرل باجوہ پر رجیم چینج کے حوالے سے خاصی تنقید ہوئی ہے۔

’آنے والوں دنوں میں جنرل باجوہ مزید تنقید کی زد میں بھی آئیں گے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی موقع پر انھیں کسی انٹرویو یا خطاب میں وضاحتیں اور وجوہات بھی بتانا پڑیں گی۔‘

عرفان صدیقی کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد ’جب جنرل باجوہ بیٹھ کر اپنی بیاض عمل کو کھول کر دیکھیں گے تو یقیناً انھیں ان واقعات پر افسوس ہو گا کیونکہ وقت تو گزر جاتا ہے، چاہے تین سال ہوں یا چھ سال لیکن تاریخ باقی رہتی ہے۔ افسوس یہی ہے کہ جب وقت گزاری کے مراحل ہوتے ہیں تو انسان تاریخ کو بھول جاتا ہے۔‘

سیاسی تجزیہ کار امتیاز گل کے مطابق ’پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان کے کسی سابق وزیر اعظم نے موجودہ آرمی چیف کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا۔‘

امتیاز گل کے مطابق اس سے جنرل باجوہ کی ساکھ میں کمی آئی اور ان کے دور کے آخری چھ ماہ میں جو کچھ ہوا اس سے لوگ حیران رہ گئے۔

امتیاز گل کے مطابق ’اب جب جنرل باجوہ اپنا عہدہ چھوڑ رہے ہیں، ملک میں پولرائزیشن ہے اور سیاسی تنازعات کی وجہ سے فوج کا مورال پست ہے۔‘

ریٹائرڈ لیفٹینینٹ جنرل امجد شعیب دہشت گردی کے خلاف جنگ اور عسکری سفارت کاری کو جنرل باجوہ کے چھ سالہ دور کی بڑی کامیابیاں سمجھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جنرل باجوہ کے دور میں آپریشن رد الفساد کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملی اور بالا کوٹ کے اہم مسئلے پر بھی انڈیا اور دنیا کے ساتھ ذمہ دارانہ طریقے سے ڈیل کیا۔‘

ان کے خیال میں ملٹری ڈپلومیسی کے ذریعے خارجہ پالیسی میں ایک جمہوری حکومت سے تعاون کیا گیا اور خصوصا مالی حوالے سے مختلف ملکوں سے فنڈز کا انتظام بھی کر کے دیا۔

’ٹرمپ کے دور میں امریکہ کو مینج کیا۔ اسی طرح افغان امن عمل میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان معاملات میں سول حکومت جنرل باجوہ پر ہی انحصار کیے ہوئے تھی۔‘

جنرل امجد کے مطابق خارجہ پالیسی کے موضوع پر بھی اہم کردار ادا کیا۔ ’جہاں جہاں سول حکومت سے کمی رہ جاتی تھی اس کو جنرل باجوہ ہی جا کر پورا کرتے تھے۔‘

رائل یونائیٹڈ سروس انسٹیٹیوٹ کے سابق ریسرچ فیلو کمال عالم کے مطابق ’پچھلے کئی سال سے وہ عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں پس پردہ کردار ادا کر رہے تھے۔‘

جنرل باجوہ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں بھی ذاتی دلچسپی لی۔ پاکستان کے اندر چینی شہریوں اور چینی مفادات پر حملوں کے باوجود جنرل باجوہ کے دور میں اس منصوبے پر تیزی سے کام جاری رہا۔

جنرل باجوہ کا ایک اہم کردار یہ بھی تھا کہ انھوں نے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکالا۔ انھوں نے پاکستان آرمی ہیڈ کوارٹر میں ایک کور سیل تشکیل دیا جو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو دیئے گئے ایکشن پوائنٹس کی پیشرفت کی نگرانی کر رہا تھا۔

جنرل امجد شعیب کے مطابق ’اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام کی فلاح بھی ان کے مدنظر تھی ۔مثال کے طور پر قطر ورلڈکپ ایونٹ میں پاکستان کے عام شہریوں کے روزگار، ملازمتوں کا بندوبست جنرل باجوہ کی کوششوں سے ہی ممکن ہوا۔‘

’اسی طرح جنرل باجوہ نے کووڈ اور سیلاب دونو ں کے معاملے میں حکومت کو بہترین مینجمنٹ کر کے دی۔کوآرڈنیشن سیل اور کمیٹیوں کے ذریعے حکومت کو سپورٹ کیا۔‘

جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں پاکستان اور انڈیا کئی بار جنگ کے دہانے تک پہنچے تاہم جنرل باجوہ نے انڈیا کے ساتھ مذاکرات اور تعلقات کی بحالی کی حکمت عملی کی حمایت کی۔

اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی سیکیورٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’پاکستان ہمیشہ سے کشمیر سمیت ہر تنازع کے حل کے لیے بات چیت اور سفارت کاری کا حامی رہا ہے۔ جب دنیا کا ایک تہائی حصہ تنازعات کا شکار ہے تو ہمیں اپنی سرزمین کو جنگ سے بچانا چاہیے۔‘

ان کے دور میں ہی پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر ازسرنو اتفاق اور عم درآمد ہوا۔

سہیل وڑائچ کے مطابق جنرل باجوہ پاکستان کو ایک امن پسند ملک کے طور پر قائم کرنا چاہتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’جنرل باجوہ کی کوشش تھی کہ وہ ایسے پڑوسی نہ بنیں جو دوسروں کو غیر مستحکم کر رہا ہو اور کرتارپور راہداری منصوبے میں ان کا یہ نقطہ نظر واضح طور پر نظر آیا۔‘

Related Articles

Back to top button