فیض احمد فیض کی افغان لڑکی سے ناکام عشق کی داستان

مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ مشہور شاعر فیض احمد فیض کی ایک نظم کا پہلا مصرع ہے جسے انکے پہلے ناکام عشق کا نتیجہ قرار دیا جاتا یے۔ یاد رہے کہ فیض کو پہلا عشق 18 برس کی عمر میں سیالکوٹ میں اپنے ہمسائے میں رہنے والی ایک افغان لڑکی سے ہوا تھا لیکن کامیاب نہیں سکا اور لڑکی کا بیاہ ایک ڈوگرے جاگیردار کے ساتھ ہو گیا۔
لیکن یاد رہے کہ اپنی مشہور زمانہ غزل ‘مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ’ فیض نے اپنی محبوبہ کے فراق میں نہیں لکھی تھی۔ فیض اپنے حالات زندگی بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میری شاعری پر جن حالات اور شخصیات کا اثر پڑا ان میں سرفہرست نام ’م۔پ‘ کا ہے جس سے مجھے کالج کے زمانے میں محبت ہوئی تھی‘۔ ڈاکٹر ایوب مرزا اپنی کتاب ’ہم کہ ٹھہرے اجنبی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’پنڈی کلب کے لان میں ایک خاموش شام میں ہم اور فیض بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا فیض صاحب آپ نے کبھی محبت کی ہے؟ بولے ’ہاں کی ہے اور کئی بار کی ہے۔‘ ’یہ کہہ کر پھر چپ ہو گئے۔ ’سیرئس لو‘ میں نے پوچھا، بولے ’ہاں ہاں تمہارا مطلب پہلی محبت سے ہے نا، محبت پہلی ہی ہوتی ہے، اس کے بعد سب کچھ ہیرا پھیری ہے۔
ایوب مرزا لکھتے ہیں کہ ’پہلی محبت میں دونوں جہان ہارنے کے بعد فیض ایم اے او کالج امرتسر پہنچے۔ ان کی عجب کیفیت تھی۔ محبت کے میدان میں پہلے تجربے کا اہم ترین پہلو تحیر ہوتا ہے۔ اس تحیر کے عالم گومگو میں فیض امرتسر کے شہر میں گواچ گئے۔
آغا ناصر نے لکھا ہے کہ ’امرتسر میں ان کی ملاقات ایک دانشور جوڑے سے ہوئی، ان کے نام تھے صاحبزادہ محمودالظفر اور ڈاکٹر رشید جہاں۔ صاحبزادہ صاحب ایم اے او کالج کے وائس پرنسپل تھے اور ان کی بیگم پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھیں۔ دونوں میاں بیوی مارکسسٹ تھے۔ ان دنوں یورپ میں ترقی پسند تحریک ابھرنا شروع ہو گئی تھی۔ ادھر فیض صاحب کا یہ عاشقی کا زمانہ تھا، فیض صاحب کا ان دونوں سے رابطہ ہوا، پھر یہ تعلق قرب اور چاہت میں بدل گیا۔‘ ایوب مرزا لکھتے ہیں کہ ’غور فرمائیں فیض صاحب کبھی بیڈمنٹن کھیل رہے ہیں اور تو کبھی کرکٹ ٹیم کی تشکیل کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر رشید جہاں کی نگاہ دوررس نے اس تنہا لیکچرار کو بھانپ لیا، پوچھا معاملہ کیا ہے۔ کسی کام کاج میں تیرا جی نہیں لگتا۔
جب فیض نے جواب میں تکلف کیا تو بلاتکلف بولیں: محبت میں ناکامی اور فیض نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا، یہ حادثہ تمہاری ذات واحد کا بہت بڑا حادثہ ہوسکتا ہے مگر یہ اتنا بڑا بھی نہیں کہ زندگی بےمعنی ہو جائے۔انھوں نے فیض کو ایک کتاب مطالعے کے لیے دی اور پھر ملنے کے لیے کہا۔ بقول فیض انھوں نے اس کتاب کو پڑھا اور ان پر چودہ طبق روشن ہو چکے تھے، یہ کتاب کارل مارکس اور اینگلز کی کمیونسٹ مینیفیسٹو تھی۔
آغا ناصر کے بقول ’یہ واقعہ فیض کی زندگی کا ایک اہم موڑ بن گیا اور ان کی شاعری اور ان کا ذہنی رجحان بدل گیا۔ وہ غریبوں، مفلسوں، ضرورت مندوں، مجبور اور مفلوک الحال عوام کے شاعر بن گئے۔ اپنے ان جذبات کے اظہار کے لیے یہ ان کی پہلی نظم تھی جسے ان کی شاعری کا اہم ترین سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔‘ ’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘ ایک ابھرتے ہوئے عظیم شاعر کا اعلان تھا کہ اب اس کے شعر اور اس کے خیال عوام کی امانت ہیں۔
اب ہم دوبارہ سے فیض کے پہلے ناکام اس کی طرف آتے ہیں۔ فیض کی یہ پہلی محبت کس شہر میں پروان چڑھی تھی اس بارے میں مختلف لوگوں نے مختلف شہروں کا نام لیا ہے۔ حمید نسیم نے افکار کے فیض نمبر میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ’کچھ فیض صاحب کے بارے میں‘ میں لکھا ہے کہ ’فیض صاحب سے میرا تعارف میرے بڑے بھائی رشید بھائی نے کروایا اور ان کے بارے میں بتایا کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے میں پڑھتے ہیں اور ملتان میں مقیم ایک لڑکی سے عشق کرتے ہیں۔فیض صاحب کی اس دور کی تمام نظموں کا محرک اور محبوب یہی خاتون تھیں جو اپنے نیم خواب شبستان میں فیض صاحب کا انتظار کرتی تھیں، مخملی بانہوں والی محبوب۔
فیض کا بندوق سے قلم تک کا سفر
آغا ناصر نے اپنی کتاب ’ہم جیتے جی مصروف رہے‘ میں فیض کی نظم ’رقیب سے‘ کا پس منظر لکھتے ہوئے لکھا کہ ’اس نظم کے شان نزول کے بارے میں مجھے کچھ مدد امرتاپریتم کے ساتھ فیض صاحب کی گفتگو سے ملی، جس کے دوران فیض صاحب نے بڑی بےتکلفی سے امرتا پریتم سے کہا تھا ’لے ہن تینوں دساں میں پہلا عشق اٹھارہ ورہیاں دی عمروچ کیتا سی۔
سوال ہوا کہ ’اسے زندگی میں حاصل کیوں نہ کیا‘ تو جواب تھا کہ ’ہمت کب ہوتی تھی اس وقت زبان کھولنے کی، پھر اس کا بیاہ کسی ڈوگرے جاگیردار کے ساتھ ہو گیا۔‘ پھر پوچھا گیا کہ ’ایک تمہاری نظم ہے جس میں تم رقیب سے مخاطب ہو، تم نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ۔ زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے۔‘ یہ نظم کس کے بارے میں تھی تو فیض صاحب نے جواب دیا کہ ’یہ بھی اسی کے بارے میں ہے جس کی خاطر نقش فریادی کی نظمیں لکھیں۔
آغا ناصر لکھتے ہیں کہ ’یہ فیض صاحب کا پہلا عشق تھا۔ ان کی محبوبہ کا تعلق ایک افغان گھرانے سے تھا۔ یہ نوعمر لڑکی سیالکوٹ میں ان کے ہمسائے میں رہتی تھی اور فیض کمرے کی کھڑکی سے اس کو آتے جاتے دیکھا کرتے تھے۔ چونکہ طبعاً بہت شرمیلے تھے اس لیے بات کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔یہ باتیں خود فیض صاحب نے زہرہ نگاہ کو بتائیں جن سے ان کے بڑے قریبی روابط تھے۔ زہرہ آپا نے مجھ سے کہا ‘فیض صاحب اس لڑکی سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی اس دیوانگی میں اس کے لیے خوبصورت شعروں کے ڈھیر لگا دیے۔ ان کا عشق اپنے شباب پر تھا جب تعلیم کے لیے انھیں سیالکوٹ سے لاہور جانا پڑا۔
فیض نے بتایا کہ ’پھر ہوا یوں کہ ہم ایک بار چھٹیوں میں لاہور سے واپس آئے تو کھلی کھڑکی کی دوسری جانب وہ چہرہ نظر نہ آیا۔ ہم نے کسی سے دریافت کیا تو پتا چلا کہ اس کی شادی ہو گئی۔فیض صاحب کے لیے یہ خبر بڑی اندوہناک تھی۔ وہ ٹوٹے دل سے واپس لاہور چلے گئے اور مدتوں اس غم کو بھلانے کی کوشش کرتے رہے۔ پھر خاصا عرصہ گزر جانے کے بعد وہ ایک بار پھر سیالکوٹ آئے تو ان کی محبوبہ بھی آئی ہوئی تھیں۔
وہ فیض صاحب سے اپنے شوہر کو ملانے کے لیے لائی۔ اس کا شوہر بہت حسین و جمیل انسان تھا۔ دراز قد، شہابی رنگت، تیکھے خدوخال، مردانہ وجاہت کا نمونہ۔ فیض صاحب سے مل کر وہ دونوں رخصت ہو گئے مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر واپس آئی۔ اس بار اکیلی تھی صرف یہ کہنے کے لیے ’تم نے دیکھا میرا شوہر کس قدر خوبصورت ہے۔‘ فیض صاحب کہتے ہیں کہ ’بس اس کا یہی فقرہ نظم ’رقیب سے‘ کی تخلیق کا سبب بنا۔