فیض کا بندوق سے قلم تک کا سفر

سیالکوٹ شہر کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں اردو ادب کی دو قد آور ادبی شخصیات نے اپنی زندگی کی پہلی سانس لیتے ہوئے دنیا میں عملی طور پر شریک ہونے کا اعلامیہ جاری کیا۔ ان میں عہد آفریں شاعر و مفکر، شاعر مشرق حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور معروف شاعر فیض احمد فیض کا نام آتا ہے۔

فیض احمد فیض 13 فروری 1911ء کو ایک معزز سیالکوٹی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد، سلطان محمد خان ایک علم پسند شخص تھے۔ وہ پیشے سے ایک وکیل تھے اور افغانستان کے امیر عبدالرحمٰن خان کے ہاں چیف سیکرٹری بھی رہے۔ بعد ازاں انہوں نے افغان امیر کی سوانح حیات شائع کی۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا۔
فیض نے 1921میں سکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں داخلہ لیا اور اس سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے امتحانات کے بعد آپ نے ایف اے کا امتحان مرے کالج سیالکوٹ سے پاس کیا۔ آپ کے اساتذہ میں میر مولوی شمس الحق (جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے )شامل تھے۔

بی اے آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا اور پھر وہیں سے 1932ء میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ بعد میں اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں بھی ایم اے کیا۔فیض نے امرتسر میں انگریزی و برطانوی ادب کے لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کی؛ اور پھر ہیلے کالج لاہور میں آپ نے میں انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کی بنیاد ڈالی۔ لیکن اِس تحریک کے بقیہ شعرا میں جو شدت اور ذہنی انتشار پایا جاتا ہے، فیض اِس اِنتہا پسندی سے گریز کرتے ہوئے اعتدال کی راہ اختیار کرتے رہے۔

فیض نے 1941ء میں برطانوی شہری ایلس جارج سے سری نگر میں شادی کی۔ اِس نو بیاہتا جوڑے نے مہاراجا ہری سنگھ کے پری محل میں اپنا ہنی مون منایا۔ 1942ء میں فیض نے فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی۔ آپ فوج میں جنرل اکبر خان کے ماتحت ایک یونٹ میں بھرتی تھے۔ جنرل خان بائیں بازو کے سیاسی خیالات رکھتے تھے اور اس لیے آپ کو خوب پسند تھے۔ 1943ء میں فیض میجر اور پھر 1944ء میں لیفٹیننٹ کرنل ہوئے۔ 1947ء میں پہلی کشمیر جنگ کے بعد آپ فوج سے مستعفی ہو کر لاہور آ گئے۔1947ء میں آپ پاکستان ٹائمز اخبار کے مدیر بنے۔

نومارچ 1951ء کو فیض کو راولپنڈی سازش كیس میں معاونت كے الزام میں حكومتِ وقت نے گرفتار كر لیا۔ آپ نے چار سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی كی جیلوں میں گزارے؛ جہاں سے آپ كو 2 اپریل 1955ء كو رہا كر دیا گیا۔ زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اِسی عرصہ میں لكھی گئیں۔ رہا ہونے کے بعد آپ نے جلاوطنی اختیار کر لی اور لندن میں اپنے خاندان سمیت رہائش پزیر رہے
1959ء میں پاکستان آرٹس کونسل میں بطورِ سیکرٹری تعینات ہوئے اور 1962ء تک وہیں پر کام کیا۔ 1964ء میں لندن سے واپسی پرآپ عبد اللہ ہارون کالج کراچی میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔:
شاعری کے مجموعے

نقش فریادی۔ نسخہ ہائے وفا (کلیات)۔ زنداں نام۔ دست صبا۔ دست تہ سنگ۔ سر وادی سینا۔ شام شہر یاراں۔ مرے دل مرے مسافر
نظمیں،
ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے۔ واہ میرے وطن۔ مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ مت رو بچے
بہار آئی۔
کلیات
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن
13فروری1911ء کو پیدا ہونے والے فیض کا دل کی شدید تکلیف کے بعد 20نومبر1984ء کو میواسپتال لاہور میں انتقال ہوگیا اور 21نومبر 1984ء کو ماڈل ٹائون قبرستان لاہور میں سپرد خاک کردیا گیا۔

Related Articles

Back to top button