کیا نواز شریف پنجاب کے انقلابی بھٹو بن سکتے ہیں؟


حالیہ دنوں لندن میں بیٹھ کر حیران کن طور پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو چارج شیٹ کرنے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کو بعض لیگی حلقوں کی جانب سے پنجاب کا انقلابی بھٹو قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ وہ پہلے پنجابی سیاستدان ہیں جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح فوجی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرتے ہوئے سویلین بالادستی کا علم بغاوت بلند کیا ہے۔
نواز شریف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کے لیڈر نے فوجی کی سیاست میں مسلسل مداخلت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے حاضر سروس آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کا نام بھی لے دیا اور انہیں للکار کر طاقت کے ایوانوں میں لرزہ طاری کردیا ہے۔ تاہم بھٹو کے مداحوں کا کہنا ہے کہ اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ نواز شریف پاکستان سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر علم بغاوت بلند کر رہے ہیں جب کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں رہتے ہوئے ضیا کی فوجی جنتا سے ٹکر لی تھی جس کے ردعمل میں انہیں ایک جھوٹے قتل کے کیس میں سزائے موت سنا دی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ضیاء کے مارشل لا دور سے برا اور مشکل وقت پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں آیا لیکن پھر بھی بھٹو شہید نے موقع اور آفر ہونے کے باوجود اپنی جان بخش دینے کے عوض ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے ہمدردوں کا کہنا ہے کہ بھٹو بننے کے لئے پھانسی کے پھندے کو چوم کر تختہ دار پر چڑھنا پڑتا ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ 1980 کی دہائی کے آغاز میں ایک فوجی آمر کی جانب سے جس شخص کو توانا سویلین شراکت دار اور سویلین چہرے کے طور پر چُنا گیا تھا آج وہی شخص انہی طاقتوں کا سب سے بڑا مخالف بنا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر نواز شریف اسی طرح مقتدر قوتوں کو لکارتے ہوئے اپنا مقصد پانے میں کامیاب ہوگئے تو پنجاب کو بھی ایک بھٹو مل جائے گا۔ لیکن اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ میاں صاحب اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے سے پیدا ہونے والے دباو کو فوج کے ساتھ دوبارہ سے ڈیل کے لیے استعمال کر لیں۔ نواز شریف کا قریباً 40 سالہ سیاسی کیریئر متعدد مراحل پر مشتمل ہے۔ وہ اور ان کے گھر والوں پر جنرل ضیا کے احسانات تھے کیونکہ انہوں نے قومیائے جانے والے اتفاق فاؤنڈری نامی اسٹیل اور فولاد کے کارخانے کو شریف خاندان کو لوٹایا تھا اور نواز شریف کو سیاسی میدان میں اتارا تھا۔ 1980 کی پوری اور 1990 کی دہائی کی ابتدا میں کاروبار کرنے والے شریفوں نے خوب دولت جمع کی۔ ناقدین کے خیال میں بہت سے لوگوں کو شاید آج بھی پنجاب کا کوآپریٹو اسکینڈل یاد ہے جس میں لاکھوں غریب کسانوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی پر ہاتھ صاف کیا گیا تھا اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ کسے پہنچا تھا؟ ناقدین کہتے ہین کہ پسندیدہ لوگوں کو پلاٹوں اور پرمٹوں، ایس آر اوز میں رد و بدل کرکے مناسب وقت پر فوائد کی فراہمی اور قومی بینکوں سے قرضوں کی فراہمی یا معافی کے ذریعے ایک طویل عرصے سرپرستی کی جاتی رہی۔ اس عمل کی بنیاد ضیا کے غیر جماعتی سیاست میں رکھی گئی تھی اور الزام لگایا جاتا ہے کہ شریف فیملی بھی اس کی بڑی بینیفشری تھی۔
اس سارے عمل کے دوران نواز شریف نے خود کو سیاسی طور پر مضبوط کیا اور پنجاب کی وزارت اعلی حاصل کر لی۔ اس کے بعد انہیں پنجاب کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں لا کھڑا کیا۔ پھر 1990 میں وہ بے نظیر بھٹو کو شکست دے کر پاکستان کے وزارت عظمیٰ پر فائز ہو گئے۔بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے مابین سیاسی کشمکش 1980ء کی دہائی کے اواخر سے لے کر 1999ء تک جاری رہی جب میاں صاحب کو دوسری مرتبہ اقتدار سے رخصت کر دیا گیا اور مشرف نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ نواز شریف کو جیل میں بند کردیا گیا، سزا سنائی گئی اور پھر ایک ڈیل کے تحت ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔
دراصل نواز شریف کا تعلق مضبوط رشتوں میں بندھے ہوئے ایک ایسے خاندان سے تھا جس میں آخری فیصلہ گھر کا بڑا مرد ہی کیا کرتا تھا، ایسے میں اپنے والد کو کھونے اور پھر ان کے جنازے میں شریک نہ ہو پانے پر انہیں گہرا صدمہ پہنچا۔ اسی عرصے میں فکری ارتقا کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی سوچ بالغ ہوتی نظر آئی اور انہوں نے ماضی کی بینظیر بھٹو کے ساتھ میثاقِ جمہوریت پر دستخط کر دیے۔ جب 2007ء میں بینظیر بھٹو کو شہد کیا گیا تو انہوں نے فوراً راولپنڈی کے ہسپتال کا رخ کیا جہاں پیپلزپارٹی کی رہنما کو تشویشناک حالت میں لایا گیا تھا۔ اس روز وہ پیپلز پارٹی کے جاں نثاروں کے غم میں برابر کے شریک ہوئے۔
جب 2013ء میں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیرِاعظم بنے تو وہ بالکل ایک نئی شخصیت کے مالک نظر آئے۔ انہوں نے اقتدار میں آتے ہیں سابق فوجی آمر جنرل مشرف کے خلاف آیئن پاکستان پامال کرنے کے الزام میں پارلیمنٹ کے ذریعے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اپنی تیسری حکومت کے ابتداء سے ہی انکے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات خرابی کی طرف جانا شروع ہو گئے۔ پھر وہ وقت آیا جب نواز شریف کو سبق سکھانے کی لئے ڈان لیکس کا کھیل رچایا گیا۔ کب کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ڈان لیکس کی بنیاد پر وزیراعظم کی حب الوطنی پر بھی سوال اٹھایا گیا۔ لیکن یہ اور بات کہ آج عمران خان کی زیر نگرانی ڈون لیگ کس کے ایجنڈے پر قومی مفاد میں عمل کیا جارہا ہے اور جہادیوں کو ٹھکانے لگایا جارہا ہے۔
بھٹو کی طرح سویلین بالادستی قائم کرنے کی کوشش کرنے والے نوازشریف کو بالآخر اسٹیبلشمنٹ نے اقامہ رکھنے کی بنیاد پر عدالتوں کے ذریعے فارغ کروا کے گھر بھجوا دیا۔
آج نواز شریف لندن میں بیٹھ کر زندگی کی سب سے مشکل جنگ لڑ رہا ہے اور اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کی وجہ سے پاکستان کی پنجابی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لئے درد سر بن گیا ہے۔ یوں طالع آزما قوتوں نے نواز شریف کی صورت میں پنجاب کو اپنا بھٹو دینے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس جنگ میں ہار کس کی ہوتی ہے اور جیت کس کی؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button