شہباز حکومت آر ہو گی نہ پار

تحریر:ماریہ میمن ، بشکریہ: اردو نیوز

پی ڈی ایم اور وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت فی الحال قائم ہے۔ عمران خان کی طرف سے احتجاج کی کال دینے کے اعلانات بار بار ہو رہے ہیں مگر ابھی تک کوئی ٹھوس حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔پہلے تو ان کی ستمبر/اکتوبر میں الیکشن کی ڈیمانڈ تھی مگر اب زمینی حقائق تو یہی ہیں کہ اس سال الیکشن ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ انہی زمینی حقائق کے پیش نظر عمران خان نے اپنے مطالبات میں بھی ترمیم کر لی ہے۔ فوری الیکشن سے وہ الیکشن کے اعلان پر آ گئے ہیں۔
اسی کے ساتھ چونکہ نومبر ہی میں ہونے والی اہم تعیناتی بھی ان کے پیش نظر ہے۔ اس لیے اس تعیناتی کو بھی انہوں نے الیکشن سےآگے لے جانے کی بات کر کے سیاسی منظرنامے میں ایک نئی ہلچل ضرور پیدا کی ہے۔ البتہ اس پہلو پر بھی فی الحال حسب توقع خاموشی ہی رہے گی۔ ان سب خبروں کو ملا کر پڑھیں تو وفاقی حکومت فی الحال قائم ہے اور اس کے علاوہ اس حکومت کے پاس کہنے کو کچھ نہیں کہ یہ بس قائم ہی ہے۔
اس حکومت کو آئے ہوئے پانچ مہینے ہو چکے ہیں۔حکومت کے نمایاں اور فیصلہ کن محاذ یعنی خزانہ، بجلی، توانائی اور داخلہ ن لیگ کے پاس ہیں۔ مسلم لیگ نواز اور اس کے موجودہ سربراہ شہباز شریف گورننس اور کارکردگی کے دعوے دار رہے ہیں۔ البتہ پانچ مہینے بعد بھی اس حکومت کے پاس اپنے بارے میں کہنے کی لیے کچھ نہیں ہے۔
پہلے تو کئی ہفتے آئی ایم ایف سے ڈیل کی آس میں گزرے۔ بڑی منتوں مرادوں کے ساتھ بالآخر ڈیل ہوئی اور اس کے ساتھ ہی آسمانوں کو چھونے والی مہنگائی کا ’تحفہ‘ بھی عوام کو ملا۔قوم کو نوید سنائی گئی کہ ڈیل کے بعد معاملات سنبھلنا شروع ہوں گے۔ معاملات خیر کیا سنبھلتے، مہنگائی پہلے سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ بجلی کے بل سے اگر کوئی بچ جائے تو تیل کی قیمت کا شکار ہو جاتا ہے اور اگر پھر بھی برداشت کر لے تو آٹے کی قیمت ہوش اڑانے کے لیے کافی ہے۔حکومت کی طرف سے اب کوئی امید بھی نہیں دلائی جا رہی جس کا مطلب یہی ہے کہ اگر ایک سال اور نکل بھی گیا تو شہباز شریف حکومت کے پاس کہنے کے لیے پھر بھی کچھ نہیں ہو گا۔

کسی کا دبائوقبول نہیں ، الیکشن وقت پرہوں گے،نواز،شہبازملاقات

اندرونی حالات میں بہتری کی امید تو خام ہے۔ اس لیے حکومت کا اب بیرونی دوروں پر ہی انحصار ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے روایتی اجلاس میں ن لیگ اور وفاقی حکومت کی طرف سے وزیراعظم کی توصیف اور پی ٹی آئی کی طرف سے جوابی تنقید دونوں ہی بچکانہ حدوں تک پہنچ رہے تھے۔ بیرونی دورے اور وہ بھی کثیر ملکی فورم فوری بریک تھرو کی طرف کم ہی جانے جاتے ہیں۔ اس دوران ہوئی دوطرفہ ملاقاتیں بھی مزید ملاقاتوں کی طرف پیش رفت کے لیے ہی ہوتی ہیں۔اس سے قبل عمران خان کے بیرونی دوروں پر بھی اسی طرح باہر سے زیادہ اندرون ملک گفتگو ہوئی اور اب شہباز شریف کی ٹیم اس کو ایک نئی سطح پر لے گئی ہے۔ آگے برطانیہ اور امریکہ میں جا کر ان کی تصویری سفارت کاری خبروں کی زینت بنے گی۔ ملک کے حقیقی مسائل اور حکومت کی کارکردگی البتہ جوں کی توں رہے گی اور وزیراعظم کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔
ایک میدان میں شہباز حکومت کے لیے کہنے کے لیے بہت کچھ ہو گا۔ وہ ہے جمہوری روایات اور آزادی رائے کو پس پشت رکھ کر اپنی مخالف سیاسی اور صحافتی آوازوں پر حکومتی طاقت کو استعمال۔ ایک طرف مقدمات اور دوسری طرف عدالتوں میں ضمانتیں۔ ایک طرف پابندیاں اور دوسری طرف عدالتوں میں درخواستیں۔ یہ اب کبھی کبھی کی نہیں روز کی کارروائی ہے۔ووٹ کو عزت، میثاق جمہوریت اور ’ہم نظریاتی ہو گئے ہیں‘ یہ کل کی بات تھی مگر ن لیگ اس کو بڑی آسانی سے فراموش کر کے اب انتقام اور بدلے کے لیے کوشاں ہے۔
پنجاب حکومت کی تبدیلی کے بعد ہر روز ایک نئی کوشش کی خبر سامنے آتی ہے۔ یہ واضح نہیں ہوتا کہ اب کی بار تبدیلی کا طریقہ کیا ہو گا مگر کوششیں جاری ہیں۔دوسری طرف ضمنی الیکشن ملتوی ہونے کے بعد اب آخرکار منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ پنجاب کے حلقوں میں ایک بار پھر ن لیگ کی سیاسی ساکھ کا نتیجہ بھی ایک بار پھر سامنے آ جائے گا۔شہباز حکومت پانچ مہینے پورے کر چکی ہے۔ شاید 10 مہینے بھی گزار لے اور ہو سکتا ہے کہ اگلے سال اگست تک بھی رہ جائے مگر سوال یہی ہے کہ اس حکومت کے پاس کہنے کو کیا ہو گا؟
معیشت سنبھلنے کے دور دور تک امکان نظر نہیں آ رہے۔ ن لیگ کے اندر سے اسحاق ڈار اب چھپ کر نہیں بلکہ کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔ مریم نواز اور نواز شریف اس حکومت سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھنا چاہتے ہیں مگرعلیحدہ رکھ نہیں پا رہے۔سیاست میں اب مسلم لیگ نواز اور اس کے حمایتی بھی اپنا مقابلہ پی ٹی آئی سے کرنے کا دعویٰ بھی نہیں کرتے۔
کچھ عرصہ پہلے تک نواز شریف کی واپسی ان کے ترکش کا آخری تیر تھا مگر اب اس تیر پر بھی بھروسہ متاثر ہو چکا ہے۔ اب تو ن لیگ کی ایک ہی حکمت عملی ہے کہ عمران خان نااہل ہوں اور مقابلہ آسان ہو جائے۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جس کی کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں شہباز حکومت کے پاس اپنے بارے میں کہنے کے لیے کچھ نہیں ہو گا ۔ یہ حکومت آر ہو گی اور نہ پار۔

Related Articles

Back to top button