کسانوں نے مریم کی کسان کارڈ سکیم ڈھکوسلہ قرار دیکر مسترد کر دی

پنجاب کے کاشتکاروں نے وزیراعلی پنجاب مریم نواز کے اعلان کردہ کسان کارڈ پروگرام کو ڈھکوسلہ قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ صوبہ پنجاب میں گندم کی کٹائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ گندم پنجاب کے کسانوں کے لیے اہم ترین فصل ہوتی ہے۔ لیکن اس بار کسان اپنی فصلوں کے بارے پریشانی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ گذشتہ برس مریم نواز کی پنجاب حکومت نے گندم کی قیمت کا تعین کیا تھا، مگر اس مرتبہ نہ تو نرخ مقرر کیا ہے اور نہ ہی گندم خریدی گئی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گندم کی قیمت بہت نیچے آ گئی ہے اور کسانوں نے مختلف شہروں میں احتجاج شروع کر رکھا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے ایک گندم پیکج کا اعلان کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ پیکج کیا ہے کس حد تک کسانوں کو ریلیف دے گا؟

مریم نواز کے اعلان کردہ پیکج کے مطابق پنجاب حکومت نے گندم کے ساڑھے پانچ لاکھ کاشتکاروں کو براہ راست گندم سپورٹ فنڈ کے تحت 15 ارب دینے کی منظوری دی ہے۔ اس پیکج کے تحت گندم کے کاشتکاروں کو کسان کارڈ کے ذریعے ڈائریکٹ فنانشل سپورٹ کے ساتھ ساتھ آبیانہ اور فکس ٹیکس میں چھوٹ کا اعلان بھی کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے اعلان کردہ پیکج میں کسانوں کومارکیٹ کے دباؤ سے محفوظ رکھنے کے لیے چار ماہ مفت سٹوریج کی سہولت دینے اور ’الیکٹرانک ویئر ہاؤسنگ ریسیٹ‘ یعنی ای ڈبلیو آر سسٹم کے نفاذ کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ اس پیکج میں گندم خریداری کے لیے فلور ملز اور گرین لائسنس ہولڈرز کو 100 ارب روپے تک بینک آف پنجاب سے حاصل کردہ قرضوں کا مارک اپ ادا کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔

پنجاب حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ کسانوں کو کئی مراعات سے نواز رہی ہے۔ پنجاب حکومت کے مطابق ساڑھے سات لاکھ کسانوں کو پہلے ہی کسان کارڈ دیے جا چکے ہیں جن سے وہ 50 ارب سے زائد کی خریداری کر چکے ہیں جبکہ 10 ہزار کسانوں کو گرین ٹریکٹر دیے جا چکے ہیں۔ چونکہ اس وقت پنجاب میں گندم کی کٹائی جاری ہے لہٰذا سوشل میڈیا پر بھی گندم کے نرخ پر کافی شوراُٹھا ہوا ہے۔ لیکن کسانوں اور کاشتکاروں سے بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پنجاب کے کسان حکومت سے سخت نالاں دکھائی دیے۔ وہ اِن سکیموں کو پیسے اور وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سکیمیں کوئی نئی نہیں اور محض چند ایک کو فائدہ پہنچانے کے علاوہ یہ کسانوں کو درپیش مسائل کا حل نہیں۔

بی بی سی سے پنجاب حکومت کے اس پیکج پر بات کرتے ہوئے ضلع سرگودھا کے نوجوان زمیندار وقاص احمد کا کہنا تھا کہ کسان کارڈ کے تحت جس ڈائریکٹ فنانشل سپورٹ کی بات کی گئی ہے، یہ ساڑھے بارہ ایکڑ کے کسان کو نہیں ملتی۔ جن چھوٹے کاشت کاروں کو یہ سپورٹ ملتی ہے ان کی شرح بھی بہت کم ہے، یعنی تین سو چھوٹے کسانوں میں سے بمشکل بیس سے پچیس کو کارڈ مل پاتا ہے۔ وقاص نے ایک اہم نقطے کی جانب یہاں اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ گندم کی خریداری کے لیے فلور ملز اور گرین لائسنس ہولڈر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو مریم نواز نے خود ’مافیا‘ کہا ہے۔ گرین لائسنس والے کسان سے گندم خرید کر رکھ لیں گے اور پھر بینک آف پنجاب سے قرض لیں گے، یہ فائدہ میں رہیں گے جبکہ میرے جیسے چھوٹے اور درمیانے درجے کے بے شمار کسانوں کو اسوقت پیسے کی اشد ضرورت ہے۔ہم تین چار ماہ تو درکنار ایک ماہ کے لیے بھی فصل کو سٹاک نہیں کر سکتے اور اسے اونے پونے داموں بیچ کر گزارا کریں گے۔

ضلع لودھراں سے تعلق رکھنے والے کاشت کار سید جعفر گیلانی کا کہنا تھا کہ ’پنجاب حکومت نے اس پیکج میں یہ کہا کہ ہم آبیانہ معاف کر رہے ہیں جبکہ آبیانہ تو ڈنڈے کے زور پر یہ ہم سے مارچ میں وصول کیا جا چکا ہے۔ دوسرا یہ کہ ایسے پیکجز سے ریلیف لینے کا طریقہ کار بہت مشکل ہوتا ہے۔ گیلانی کے موقف کی تائید ضلع لیہ کے کسان خالد خان میرانی نے بھی کی۔ انکا کہنا تھا کہ آبیانہ تو پنجاب کی کسان دوست حکومت ہم سے پہلے ہی وصول کر چکی ہے۔ اسکے علاوہ کسان مالی مسائل کی وجہ سے گندم کو سٹور کرنے کی پوزیشن میں نہیں بلکہ سٹور کرنے کا فائدہ سرمایہ کار کو ہوگا۔‘

سابق سیکٹر کمانڈر ISI پنجاب نے یوٹیوبر عادل راجا کو کیسے ٹھوکا ؟

مرکزی چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ساڑھے پانچ لاکھ کاشتکاروں کو جو 15 ارب دینے کا اعلان ہوا ہے یہ رقم مجموعی طور پر فی کسان لگ بھگ 27 ہزار روپے بنتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس پیکج کو مسترد کرتے ہیں۔ ’ہم کہتے ہیں کہ کسان کی گندم کے بہتر نرخ کا تعین کیا جائے اور اس کو خریدا جائے۔‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے زمیندار چودھری نیاز محمد نمبردار کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی سکیموں کے باوجود ’ہمارے کسان بے چین ہیں۔‘ وہ سکیموں سے زیادہ کاشت کاری سے جڑے زرعی آلات کی سستے داموں فراہمی کو اہم سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کے خیالات کا اظہار سیالکوٹ، قصور، اوکاڑہ، ساہیوال، پاکپتن، خانیوال، ملتان، لیہ رحیم یار خان، بھکر اور مظفر گڑھ کے کسانوں نے بھی کیا۔

Back to top button