پاک افغان فوجی کاروائیوں کے بعد دونوں ممالک میں جنگ کا خدشہ

افغانستان کے صوبے پکتیکا میں تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد نیٹ ورک پر پاک فضائیہ کی بمباری کے بعد افغان آرمی کی جوابی فوجی کارروائی سے دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین سرحدی جنگ چھڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں تحریک طالبان کی جانب سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی کاروائیوں کے رد عمل میں پاک فضائیہ نے چند روز پہلے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد کیمپس پر بمباری کی تھی جس سے 42 جنگجو مارے گئے تھے- اب افغان طالبان حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی حملے کے جواب میں پاک افغان سرحد پر پاکستانی چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت اشتعال انگیزی پر یقین نہیں رکھتی لیکن حالیہ حملے پاکستانی حملوں کا جواب تھے۔انہوں نے کہا کہ طالبان جنگ کو مزید طوالت دینے کے خواہش مند نہیں ہیں اور موجودہ کشیدگی کو مزید بڑھانے سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔ افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ پکتیکا کے علاقے برمل میں پاکستانی ائیر فورس کی جانب سے جو بمباری کی گئی اس میں بچوں سمیت عام لوگوں کو نشانہ بنایا گیا اور مجموعی طور پر 46 افراد ہلاک ہوئے۔

دوسری جانب پاکستانی دفترِ خارجہ نے پکتیکا میں عورتوں اور بچوں کے مارے جانے کو جھوٹا پروپگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاک فضائیہ نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی تھی جس میں صرف جنگجو ہی مارے گئے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد گروہوں سے عوام کو محفوظ رکھنے کے لیے سرحدی علاقوں میں کارروائیاں کرتا رہے گا۔

یاد رہے کہ پاکستانی سیکیورٹی ذرائع نے پکتیکا میں چار مقامات پر بمباری کی تصدیق کی تھی۔ ذرائع کے مطابق یہ دہشت گرد سرحد پار سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے اور اسی لیے انہیں ٹارگٹ کیا گیا۔

دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان حالیہ جھڑپوں میں جانی نقصان کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آئی ہیں، تاہم ان اعداد و شمار کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔ افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ افغانستان اس وقت سیکیورٹی، معیشت، انسانی حقوق اور انسانی بحران جیسے سنگین چیلنجز سے دوچار ہے۔ اُنکا کہنا تھا کہ پاکستان افغان سرحدی کشیدگی کے بعد طالبان حکومت نے ان مسائل سے عوام کی توجہ ہٹا کر پاکستان مخالف بیانیے کو مضبوط کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستانی فضائی حملے کے خلاف سرحدی صوبے پکتیکا سمیت مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔

افغانستان کے مشرقی صوبے خوست سے تعلق رکھنے والے صحافی یوسف منگل کے مطابق خوست بازار میں مقامی افراد کی ایک بڑی تعداد نے ایک جلسے میں شرکت کی جس میں مظاہرین نے حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جوابی کارروائی کا مطالبہ کیا۔

سمیع یوسفزئی کے بقول استعداد کے لحاظ سے پاکستان افغانستان کے مقابلے میں ایک بڑا اور مضبوط ملک ہے۔ دفاعی اور معاشی لحاظ سے پاکستان کا شمار افغانستان کے مقابلے میں مستحکم ریاستوں میں ہوتا ہے اور عالمی سطح پر بھی اس کی ایک شناخت ہے۔ اُن کے بقول طالبان، پاکستان کے داخلی سیکیورٹی مسائل سے بھی آگاہ ہیں اور ان مسائل کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ افغان طالبان سرحد پر براہ راست لڑائی کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ ملک کے اندر تحریک طالبان پاکستان کو بطور ‘پراکسی’ بھی استعمال کر سکتے ہیں جو طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ کی بیعت کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق اس خطے میں سرحدی تنازعات اور کشیدگی پڑوسی ممالک کے درمیان معمول کی بات ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں دونوں ممالک کسی بڑے تصادم تک جانے سے گریز کریں گے۔

اُن کے بقول اگر کشیدگی بڑھتی ہے تو سرحدی علاقوں میں رہنے والے عام شہری براہِ راست متاثر ہو سکتے ہیں جس سے ایک نیا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔

پاکستان اور افغان حکومت کو مل کر مسائل حل کرنا ہوں گے : افغان قونصل جنرل عبدالجبار

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق خان کے کابل کے دورے کے دوران طالبان حکومت سے اُن کی ملاقاتوں کے تعلقات میں بہتری کی اُمید پیدا ہوئی تھی۔ تاہم حالیہ واقعات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی مزید بڑھے گی۔

ان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان بداعتمادی کی فضا پہلے سے موجود تھی اور صادق خان ایک سال بعد بطور پاکستانی سفارت کار افغانستان کا دورہ کر رہے تھے۔ تاہم ان واقعات نے اس مثبت پیش رفت کو متاثر کر دیا ہے۔ اُن کے بقول اس واقعے کے بعد مفاہمت کا سلسلہ رک گیا ہے اور اس دوران طے پانے والی مفاہمتی یادداشتوں پر عمل درآمد کا امکان اب معدوم نظر آتا ہے۔ کیوں کہ کسی ملک کے اندر فضائی کارروائی کے اثرات کو زائل ہونے میں کافی وقت درکار ہوتا ہے۔

Back to top button