وفاقی حکومت کا شہریوں کے شناختی کارڈ کو ہیلتھ کارڈ بنانے کا فیصلہ

وفاقی حکومت نے نظام صحت میں انقلابی تبدیلی لاتے ہوئےہر شخص کی صحت بارے معلومات کو سینٹرلائز کر کے اس کے شناختی کارڈ سے منسلک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے بعد عوام کی ہر بار ایک ہی ٹیسٹ بار بار کروانے کے عمل سے جان چھوٹ جائے گی کیونکہ عموماً مریض چاہے پہلی بار ہسپتال جائے یا دوسری بار، ہر مرتبہ اُسے نئے ٹیسٹ کروانا پڑتے ہیں۔ ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال جانے کی صورت میں بھی سارا عمل دوبارہ شروع کرنا پڑتا ہے۔تاہم اب ہر شہری کا شناختی کارڈ ہی اُس کا ہیلتھ ریکارڈ بن جائے گا، جس کے ذریعے شہریوں کے طبی ریکارڈ کو محفوظ اور منظم رکھا جا سکے گا۔اب نہ صرف ہسپتالوں کے پاس یہ معلومات موجود ہوں گی بلکہ شہری خود بھی اپنی صحت کی صورت حال سے باخبر رہ سکیں گے۔

وزارت صحت کے مطابق ملک میں صحت کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے دو اہم اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ان کے مطابق ’ان میں ایک ہر مریض کے لیے ایک مستقل ایم آر نمبر (میڈیکل ریکارڈ نمبر) کا اجرا اور دوسرا ایک جامع ٹیلی میڈیسن نظام کا قیام ہے۔‘’اس نظام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مریض کی مکمل میڈیکل ہسٹری ایک مرکزی ڈیجیٹل ریکارڈ کے ساتھ منسلک ہو تاکہ وہ جہاں بھی علاج کے لیے جائے اُس کی پرانی طبی معلومات متعلقہ ڈاکٹر کو فوری طور پر دستیاب ہوں۔‘

حکام کے مطابق پاکستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب مریض مختلف ہسپتالوں یا کلینکس کا رُخ کرتے ہیں تو انہیں ہر بار نئے ٹیسٹ کروانا پڑتے ہیں کیونکہ ڈاکٹرز کو اُن کی میڈیکل ہسٹری تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔‘ ’اس سے نہ صرف وقت اور پیسے کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ علاج بھی مکمل طور پر مؤثر ثابت نہیں ہوتا۔‘ تاہم اب حکومتی فیصلے سے اس صورتحال کا تدارک ممکن ہو سکے گا۔ کیونکہ اب مریض کا شناختی کارڈ نمبر یا ایم آر نمبر اُس کی مکمل میڈیکل ہسٹری کے ساتھ منسلک ہو گا۔‘’جب بھی مریض کسی ہسپتال یا کلینک جائے تو ڈاکٹر باآسانی جان سکے کہ مریض نے پہلے کن ڈاکٹروں سے علاج کرایا اور اُسے کون سی بیماریاں لاحق رہیں؟‘

خیال رہے کہ ’یہ پورا نظام نادرا کے ڈیٹا بیس کے ساتھ منسلک کیا جائے گا تاکہ ہر شہری کا ایک مربوط قومی میڈیکل ریکارڈ تشکیل دیا جا سکے۔‘ اس کے تحت ٹیلی میڈیسن کے ذریعے دور دراز علاقوں میں بیٹھے ڈاکٹرز بھی مریض کی مکمل معلومات تک رسائی حاصل کر کے مؤثر تشخیص و علاج کر سکیں گے۔‘حکام کے مطابق اس منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے اور مستقبل میں جب یہ نظام مکمل طور پر فعال ہو جائے گا تو مریض کی میڈیکل ہسٹری خود بخود منتقل ہو گی اور غیر ضروری اور بار بار ٹیسٹ کروانے سے نجات ملے گی۔

دہشت گردی کا جن پاکستان کو نگلنے لگا : فوجی قیادت کب جاگے گی ؟

دوسری جانب ماہرین صحت کا اس حکومتی فیصلے کو سراہتے ہوئے کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ایک جدید، مربوط اور ڈیجیٹل طبی نظام کی اشد ضرورت تھی، جس میں ہر مریض کا مکمل ریکارڈ ایک مستقل ایم آر نمبر سے وابستہ ہو۔’اس سسٹم کے تحت نہ صرف مریضوں کو بار بار ٹیسٹ کروانے سے نجات ملے گی، بلکہ ڈاکٹرز کو فوری اور درست معلومات بھی دستیاب ہوں گی جس سے علاج تیز، مؤثر اور کم خرچ میں ممکن ہو سکے گا۔‘ اس نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مریض جہاں کہیں بھی علاج کے لیے جائے گا اس کی مکمل میڈیکل ہسٹری چند لمحوں میں دستیاب ہو جائے گی۔

’پاکستان جیسے ملک میں جہاں مریض اکثر اوقات مختلف ہسپتالوں کے چکر کاٹتے ہیں اور اگر پُرانی رپورٹس ساتھ نہ ہوں تو انہیں دوبارہ مہنگے ٹیسٹ کروانا پڑتے ہیں، لہٰذا وہاں اس سسٹم کی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے۔‘ ’یہ نظام نہ صرف تشخیص کو بہتر بنائے گا بلکہ مریض کا وقت، پیسہ اور وسائل بھی بچائے گا۔ یہ علاج تک محدود نہیں بلکہ فالو اپ اور مریض کی مجموعی نگہداشت کو بھی زیادہ مؤثر بناتا ہے۔‘

تاہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت واقعی اس نظام کو وقت پر اور مکمل طور پر نافذ کر پائے گی؟ کیونکہ ماضی میں کئی منصوبے بیوروکریسی اور نظام کی پیچیدگیوں کی نذر ہو چکے ہیں۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ ’یقیناً ہر نئی تبدیلی کے ساتھ چیلنجز بھی آتے ہیں، خاص طور پر جب وہ کسی پرانے نظام کو بدلنے والی ہو۔‘’تاہم اگر حکومت کی نیت صاف ہو، حکمتِ عملی واضح ہو اور سیاسی عزم موجود ہو تو یہ کوئی ناممکن کام نہیں۔ دنیا کے کئی ممالک نے یہ نظام کامیابی سے اپنایا ہے، پاکستان بھی یہ کر سکتا ہے۔‘

Back to top button