فیلڈ مارشل عاصم منیر کے امریکی دورے کی تشہیر کیوں نہیں کی جا رہی؟

فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر 15 جون سے پانچ روزہ سرکاری دورے پر امریکا میں ہیں تا کہ پاک امریکہ سٹریٹیجک اور فوجی تعلقات کو مزید بہتر بنا کر فروغ دیا جا سکے، تاہم اس دورے کے دوران ہونے والی ملاقاتوں کی میڈیا پر تشہیر نہیں کی جا رہی جس کی بنیادی وجہ ایران پر ہونے والا اسرائیلی حملہ ہے جس میں امریکہ اسرائیل کا واحد اتحادی ہے۔

اسلام آباد میں سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اتوار کے روز واشنگٹن پہنچے، جہاں وہ پانچ روزہ سرکاری دورے پر امریکا کے ساتھ عسکری اور تزویراتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطح کی ملاقاتیں کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ دورہ بنیادی طور پر دوطرفہ نوعیت کا ہے اور باضابطہ طور پر 14 جون کو امریکا کی فوج کے 250ویں یومِ تاسیس کی تقریبات سے منسلک نہیں ہے، اگرچہ ٹائمنگ کے لحاظ سے دونوں کا تقابل کیا جارہا ہے۔ ذرائع نے واضح کیا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے امریکی فوجی پریڈ میں شرکت نہیں کی، لیکن کچھ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل عاصم منیر نے اپنے دورے کے پہلے دو روز امریکی سینٹرل کمانڈ کے صدر دفتر ٹمپا میں گزارے جو فلوریڈا میں واقع ہے۔ تاہم واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

ذرائع کے مطابق آرمی چیف کا دورہ امریکا اور پاکستان کے عسکری اور سٹریٹجک تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش ہے، جس میں امریکی وزرائے دفاع و خارجہ اور اعلیٰ فوجی حکام سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ دوسری جانب آرمی چیف کے امریکہ پہنچنے سے ایک روز پہلے 14 جون کو واشنگٹن میں تحریک انصاف امریکہ چیپٹر کے یوتھیوں نے پاکستانی سفارت خانے کے باہر ایک مظاہرہ کیا، جس میں ملک میں ’جمہوریت‘ بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم مظاہرین کی تعداد دو درجن سے زیادہ نہیں تھی۔ جب مظاہرے کے ایک منتظم سے پوچھا گیا کہ ابھی تو آرمی چیف امریکہ پہنچے ہی نہیں لہذا یہ مظاہرہ کیوں کیا جا رہا ہے تو اس نے جواب دیا کہ ہمیں یقین ہے کہ عاصم منیر واشنگٹن میں پہلے سے موجود ہیں، اسی لیے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی جانب سے کیا جانے والا دورہ امریکہ ایک نہایت حساس وقت پر ہو رہا ہے، خصوصا جب اسرائیل ایران پر حملہ آور ہے۔ لہذا جان بوجھ کر جنرل عاصم منیر کے دورہ امریکہ کی زیادہ تشہیر نہیں کی جا رہی تاکہ پاکستانیوں کے جذبات مجروح نہ ہوں چونکہ سب جانتے ہیں کہ امریکہ اس جنگ میں اسرائیل کا اتحادی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ نہ کیا ہوتا تو پاکستانی میڈیا میں جنرل عاصم کے دورے کی خوب تشہیر کی جاتی کیونکہ ٹرمپ کو ماضی قریب میں عمران خان کے حامی ان کا مضبوط ترین اتحادی قرار دیتے تھے۔

اگلے 5 برسوں میں پاکستان تیزی سے ترقی کرے گا : فیلڈ مارشل عاصم منیر

آرمی چیف کے دورے کی ٹائمنگ کچھ ایسی ہے کہ ایک جانب تو پاکستان، امریکا کی حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن دوسری جانب وہی امریکہ اسرائیل کا اتحادی بھی ہے جو کہ ایران ہر حملہ آور ہے ۔ ایسے میں پاکستان کافی مشکل صورتحال سے دوچار ہے لیکن پھر بھی اس نے کھل کر اسرائیل کے حملوں پر اظہار مذمت کیا ہے اور تہران کے ساتھ مشکل وقت میں کھڑا رہنے کے عزم کی تجدید کی ہے۔ اسی وجہ سے اگلے روز ایرانی پارلیمنٹ میں پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی گونجے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے ایران کیساتھ کھڑا ہونے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے ایک انٹرویو میں ایران کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی ایک انتہا پسند ملک قرار دے دیا ہے، چنانچہ اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں انڈیا اور اسرائیل مل کر پاکستان پر حملہ اور ہو سکتے ہیں۔

اٹلانٹک کونسل کے ساؤتھ ایشیا سینٹر سے وابستہ ممتاز تجزیہ کار شجاع نواز کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ تعلقات میں سرد مہری آنے کے بعد پاکستان چین کے بہت زیادہ قریب ہو چکا ہے۔  انہوں نے کہا کہ واشنگٹن بھی پاکستان کو چینی کیمپ میں دیکھتا ہے، لیکن انسداد دہشت گردی کے لیے وہ اسے ایک فائدہ مند اڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اپنی ٹیکنالوجی اور دفاعی سامان کی فروخت کے لیے انڈیا کو ایک بڑی منڈی کے طور پر دیکھتا ہے اور اسی لیے بظاہر پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ کھڑا ہوتا نظر آتا ہے۔ تاہم حالیہ پاکستان بھارت جنگ کے دوران پاک فضائیہ کے ہاتھوں بھارتی رافیل طیاروں کی تباہی نے امریکہ کو پاکستان کے ساتھ اپنا رویہ بہتر بنانے پر مجبور کر دیا ہے۔

Back to top button