کیا جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنانا عجلت کا فیصلہ ہے ؟

جہاں ایک جانب پاکستانی افواج کے ہاتھوں بھارت کی شکست کے بعد جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنائے جانے پر مسرت کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اس حکومتی فیصلے کو عجلت کا فیصلہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔

جرمن حکومت کی براڈکاسٹ ویب سائٹ ڈی ڈبلیو کے مطابق پاکستان کے دفاعی اور صحافتی حلقوں کا ماننا ہے کہ جس جنگ کے نتیجے میں جنرل عاصم منیر کو یہ اعزاز دیا گیا ہے، وہ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ انکے مطابق پاکستان کو ویسے بھی بہت سارے محاذوں پر دہشت گردی کی جنگ کا سامنا ہے، ایسے میں یہ حتمی نتیجہ نکال کر فیلڈ مارشل بنا دینا کہ پاکستان حتمی طور پر جنگیں جیت چکا ہے،  جلد بازی کا فیصلہ ہے۔

یاد رہے کہ پاکستانی حکومت نے آرمی چیف سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی ہے، جس کے بعد وہ ایک فائیو سٹار جنرل بن گئے ہیں، جو انہیں ملک کا سینئر ترین فوجی افسر بنا دیتا ہے۔ ایسے میں اصل سوال یہ ہے کہ آرمی چیف کو فیلڈ مارشل بنانے کے پیچھے اصل حکومتی مقاصد کیا ہیں؟ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے جنرل عاصم منیر کی انڈیا کے خلاف کامیاب جنگی حکمت عملی کے اعتراف میں انہیں فیلڈ مارشل بنایا ہے۔ تاہم بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بھارت کے ساتھ جنگ نہیں بلکہ مختصر جھڑپیں ہوئی تھیں جنکی بنیاد پر جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینا اس کامیابی کے تناسب میں نہیں آتا۔

دفاعی موضوعات پر دسترس رکھنے والی معروف پاکستانی مصنفہ اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں، کہ ”میرے خیال میں اتنی عجلت میں فیلڈ مارشل کا اعزاز دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ بلاشبہ ایک اہم ترین جنگ تھی لیکن فیصلہ کن فتح نہیں تھی۔ ابھی بھارت اور پاکستان کے مابین سیز فائر ہوا ہے اور جنگ ختم نہیں ہوئی۔ لہٰذا اس فیصلے سے نہ تو آرمی چیف اور نہ ہی فوج کی ساکھ میں اضافہ ہو گا۔ آرمی چیف کو فیلڈ مارشل بنانے کا فیصلہ اس قومی ہم آہنگی کو گھائل کر گیا ہے جو جنگ کے بعد پیدا ہوئی تھی۔‘‘ ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بڑے اعزازات صرف واضح اور فیصلہ کن فتوحات پر دیے جاتے ہیں۔ بھارت نے بھی جنرل مانک شا کو فیلڈ مارشل کا درجہ تب دیا تھا جب 1971 کی جنگ میں پاک فوج نے انکے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے اور پاکستان ٹوٹ گیا تھا۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ مسلم لیگ ن کی حکمت عملی کا حصہ ہے اور موجودہ حکومت فوجی قیادت کے ساتھ تعلق مضبوط بنانے کی ایک کوشش کر رہی ہے۔

بعض دفاعی تجزیہ کار گو کہ حکومتی فیصلے کی حمایت کرتے ہیں لیکن وہ بھی عائشہ صدیقہ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنرل عاصم کو فیلڈ مارشل کا اعزاز دینا حکومت کا فیصلہ ہے اور یہ ان کے لیے ایک اعزاز ہے۔ تاہم جنگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، ”ہم ابھی بھی بھارت اور دیگر کئی محاذوں پر حالتِ جنگ میں ہیں۔ مسئلہ کشمیر ابھی بھی موجود ہے، بھارت کے ساتھ پانی کا تنازعہ بھی حل نہیں ہوا اور آج بھی ایک دہشت گرد حملہ دیکھنے میں آیا۔ لیکن اس اقدام کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ بعض اوقات جب کسی کو ایسا اعزاز دیا جاتا ہے تو وہ ملک کے مسائل کو حل کرنے پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔‘‘

میڈیا ہمارا فخرہے،دنیا کوبتادیاہم صرف سچ بولتے ہیں،فیلڈ مارشل سیدعاصم منیر

فیلڈ مارشل کے رینک اور اسٹیٹس کی وضاحت کرتے ہوئے جنرل نعیم خالد لودھی نے بتایا کہ حکومت نے آرمی چیف کو کوئی معمولی عہدہ نہیں دیا بلکہ انکے نوٹیفکیشن میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ انہیں ترقی دے دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا: ”یہ یقیناً آرمی چیف کے لیے ایک نیا دور ہوگا، چاہے وہ تین سال کا ہو یا پانچ سال کا، یہ ابھی واضح نہیں کیونکہ 26ویں آئینی ترمیم آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کا ذکر کرتی ہے، لیکن فیلڈ مارشل کے لیے کچھ نہیں کہا گیا۔ میرے خیال میں اس عہدے کو قانونی طور پر جگہ دینے کے لیے مزید قانون سازی کی جائے گی۔‘‘

فیلڈ مارشل بننے کے بعد آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے نعیم لودھی نے کہا، ”جب آرمی چیف ریٹائر ہوں گے تو وہ دفتر چھوڑ دیں گے لیکن فیلڈ مارشل کے عہدے سے کبھی بھی ریٹائر نہیں ہوں گے۔‘‘ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اسکا مطلب یہ نہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بطور فیلڈ مارشل فیصلے کریں گے۔ یہ ایک اعزازی عہدہ ہوگا، جس کے ساتھ کچھ مراعات اور عملہ ضرور ہوگا، لیکن وہ عملی فرائض سرانجام نہیں دیں گے۔

Back to top button