فائنل احتجاج کی کال: عمران کا اپنی پارٹی قیادت پر عدم اعتماد
اڈیالہ جیل میں بند عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کی جانب سے 24 نومبر کو اسلام آباد پر چڑھائی کے اعلان کے بعد یہ تاثر تقویت پکڑ گیا ہے کہ عمران نے عملی طور پر اپنی جماعت کی مرکزی قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے جو اس منصوبے کے حق میں نہیں تھی، اسی لیے کپتان نے اپنی بہن کے ذریعے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے، پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کال پر نہ صرف پارٹی کے مرکزی قائدین کو اعتراض تھا بلکہ حال ہی میں جیل سے رہائی پانے والی بشری بی بی بھی اس منصوبے کے خلاف تھیں۔
بتایا جاتا ہے کہ وزیراعلی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈاپور، پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان بھی اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے تھے لیکن عمران خان کا اصرار تھا کہ مارو یا مر جاؤ کی پالیسی پر عمل درامد کا وقت آ گیا ہے اور احتجاج ہر صورت 24 نومبر کو ہی ہوگا جسے کامیابی کی صورت میں دھرنے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ علیمہ خان نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ عمران خان نے احتجاج کی فائنل کال دے دی ہے۔ انکے مطابق کپتان نے اپنے ایک ایک کارکن کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ انہوں نے 24 نومبر کو پورے پاکستان میں نکلنا ہے۔
لیکن تحریک انصاف کی پچھلے دو ماہ میں مسلسل ناکام احتجاجی کالز کے پیش نظر عمران کی اس فائنل کال پر مختلف سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا سوال ہے کہ پچھلی احتجاجی کال کی ناکامی کے بعد ایسا کیا ہو گیا ہے کہ صرف دو ہفتوں میں تحریک انصاف عوام کو سڑکوں پر لے آئے اور 126 دن جیسا دھرنا دے ڈالے؟ سوال یہ بھی ہے کہ اس مرتبہ پی ٹی آئی اپنی حکمت عملی میں کیا تبدیلی لائے گی کہ حکومت اور اسکی اتحادی فوجی اسٹیبلشمنٹ اس کے مطالبات سننے پر مجبور ہو جائیں۔ مبصرین سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں کارکنوں کو متحرک کرنا اور حکومت کو ٹف ٹائم دینا پی ٹی آئی کی قیادت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا کیونکہ 26 ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد عمران خان کے حامیوں کے حوصلے اور امیدیں ویسے ہی ٹوٹ چکی ہیں۔
فواد چوہدری کے بھائی اور عمران خان کے وکیل فیصل چودھری کے مطابق ’عمران خان نے اسلام آباد مارچ کے لیے کمیٹی قائم کردی ہے، تاہم انہوں نے کمیٹی کے ممبران کے نام منظر عام پر لانے سے انکار کیا اور کہا کہ خان صاحب نے کمیٹی ممبران کے نام بتانے سے منع کیا ہے چونکہ انہیں فوری گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ تام سیاسی مبصرین سوال کرتے ہیں کہ اگر عمران خان اور ان کے ساتھی ابھی سے گرفتاری کے خوف میں مبتلا ہو چکے ہیں تو 24 نومبر کو عام پارٹی کارکن انکی خاطر باہر کیوں نکلے گا۔ تاہم فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ 24 نومبر کو اسلام اباد میں بھرپور احتجاج ہو گا اور تب تک ختم نہیں ہوگا جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوتے۔
تحریک انصاف چھوڑ کر لوٹا بن جانے والے فواد چوہدری کے چھوٹے بھائی فیصل چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ کہ عمران خان نے واضح کیا ہے کہ احتجاج کی یہ فائنل کال ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم واپس لی جائے اور ہمارا مینڈیٹ بھی واپس کیا جائے، اس کے علاوہ بغیر ٹرائل گرفتار پارٹی قیادت، رہنماؤں اور کارکنان کو رہا کیا جائے۔ تاہم حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ26 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ نے اکثریت کے ساتھ کی ہے لہذا اس کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جہاں تک الیکشن نتائج کا تعلق ہے تو وہ تسلیم کیے جا چکے ہیں جس کے بعد حکومتیں بھی وجود میں آ چکی ہیں لہذا یہ مطالبہ بھی لایعنی ہے۔ حکومتی حلقے کہتے ہیں کہ جہاں تک تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنان کی رہائی کا تعلق ہے تو ان سب کے کیسز عدالتوں میں لگے ہوئے ہیں اور وہیں سے انکی قسمت کا فیصلہ ہوگا۔
اس دوران بعض حلقوں کی جانب سے تحریک انصاف کے رہنماؤں پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ان کی زبان بولتے ہیں۔ ایسے میں علیمہ خان سے فائنل کال کا اعلان کتنی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے پارٹی کے اندرونی حالات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے عملی طور پر اپنی جماعت کی دستیاب قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے تاہم علیمہ خان کے ذریعے اعلان کرکے ان کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ان کی اہلیہ بشری بی بی نے رہائی کے بعد سیاسی میدان میں قدم رکھنے سے انکار کر دیا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کا ایک نئی سیاسی جماعت میدان میں اتارنے کا پلان
سیاسی تجزیہ کاروں کو کہنا ہے کہ پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کی بجائے احتجاجی کال کا اعلان علیمہ خان کی جانب سے اس لیے کیا گیا کہ عمران کو اپنے ساتھیوں پر اعتماد نہیں رہا اور وہ انہیں شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انکا خیال یے کہ تحریک انصاف کی جیل سے باہر موجود قیادت کمپرومائزڈ ہے اور وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی ہے۔ اگرچہ عمران خان نے احتجاج کے لیے کمیٹی قائم کی ہے جو فیصلے کرے گی لیکن اس کمیٹی کی اصل سربراہ بھی علیمہ خان ہی ہوں گی کیونکہ اب عمران اپنی پارٹی قیادت پر مزید اعتماد نہیں کریں گے۔
ایسے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا علیمہ خان 24 نومبر کو عمران خان کے سپورٹرز کو اسلام اباد میں اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو پائیں گی اور کیا انکی کال کامیابی سے ہمکنار ہو سکے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلسل احتجاجی کالز کی ناکامی کے بعد اب جب تک لاکھوں لوگ باہر نہیں نکلیں گے، حکومت پر کسی احتجاج کا کوئی اثر نہیں ہو گا اور نہ ہی اس کے نتیجے میں عمران خان باہر نکل پائیں گے۔