نواز شریف کس وجہ سے سیاسی منظر نامے سے غائب رہنے لگے ہیں؟

8 فروری 2024 کے الیکشن کے بعد مسلم لیگ نون کو وفاق اور صوبے میں حکومت بنائے ایک سال ہونے والا ہے، لیکن پارٹی کے قائد نواز شریف سیاسی منظر نامے پر اب بھی پوری طرح متحرک دکھائی نہیں دے رہے۔ وہ لمبے وقفے کے بعد اچانک منظر عام پر آتے ہیں اور پھر اسی طرح لمبے عرصے کے لیے غائب ہو جاتے ہیں۔
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بن کر اپنی سیاسی اننگز کھیل چکے ہیں اور اب پس منظر میں رہ کر اپنی بیٹی مریم نواز کو مستقبل کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ بطور وزیراعلی پنجاب مریم نواز کی کارکردگی اس لیول کی نہیں ہے جسے بطور وزیراعلی نواز شریف اور شہباز شریف نے ٹچ کیا تھا۔ انکا کہنا ہے کہ ویسے بھی مستقبل میں نون لیگ سے وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار کون ہو گا، اس کا فیصلہ سیاسی حالات اور پنجاب اور وفاقی حکومتوں کی کارکردگی پر منحصر ہوگا۔
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ خان کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے سیاسی طور پر غیر متحرک ہونے کی باتیں حقیقت پر مبنی نہیں۔ انکا کہنا ہے کہ وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے، جس کے قائد نواز شریف ہیں اور اب بھی ان کے ہی فیصلوں پر عمل ہوتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پنجاب اور وفاق کی دونوں حکومتیں ان ہی کی ہدایات پر کام کر رہی ہیں۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی اپنی ہر تقریر میں اپنے والد کا تذکرہ ضرور کرتی ہیں۔ بقول ان کے، وفاقی اور پنجاب حکومت نواز شریف کے احکامات کی روشنی میں چلائی جا رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی اکثر اہم مواقع پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف ماضی کی طرح اقتدار کے ایوانوں میں نہیں بلکہ جاتی امرا میں واقع اپنی رہائش گاہ میں ہی زیادہ تر وقت گزارتے ہیں۔
معروف ویب سائٹ انڈیپینڈنٹ اردو کے مطابق یہ ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف نہ تو ذیادہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور نہ ہی سیاسی لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ نواز شریف سیاسی طور پر متحرک کیوں نہیں ہو رہے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے کچھ تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور اس حوالے سے جاننے کی کوشش کی۔ کئی کتابوں کے مصنف اور سابق نگران وزیراعلی پنجاب ڈاکٹر حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ نواز شریف نے خود پس منظر میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کا ’فرنٹ لائن کردار‘ اب پہلے کی طرح نہیں رہا۔ حسن عسکری نے کہا: ’مسلم لیگ ن کے اندر بھی دیگر جماعتوں کی طرح اندرونی سیاست چلتی ہے۔ موجودہ صورت حال میں نواز شریف نے اپنے بھائی شہباز شریف کو وزیراعظم اس لیے بنوایا کہ وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ قریب سمجھے جاتے ہیں۔ ویسے بھی نواز شریف اکثریت کے ساتھ حکومت کرنے کے عادی ہیں، اس لیے جب انہوں نے دیکھا کہ وفاق میں نون لیگ کو کئی جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت بنانا پڑے گی تو وہ پیچھے ہٹ گئے اور اپنے چھوٹے بھائی کو وزیراعظم بنوا کر خود پس منظر میں رہنے کا فیصلہ کیا۔
سینئیر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ نواز شریف نے ذہنی طور پر فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنی سیاسی وراثت اپنی بیٹی مریم نواز کو منتقل کریں گے لہذا وہ پس پردہ رہ کر مریم کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں نواز شریف نے مریم کو وزیراعلی پنجاب بنوایا ہے اور اگلے مرحلے میں وہ انہیں وزیراعظم بنانے کی کوشش کریں گے۔ تاہم مریم نواز کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بطور وزیراعلی پنجاب پرفارم کریں اور ایک موئثر سیاسی بیانیہ بنائیں تا کہ انکی جماعت اقتدار حاصل کرنے کے بعد عوام میں غیر مقبول نہ ہو جائے جیسا کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا۔
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق نواز شریف سیاسی طور پر اب بھی اہم ترین لیڈر ہیں لیکن وہ ایک سوچی سمجھی سیاسی حکمت عملی کے تحت پیچھے بیٹھ کر وفاقی اور پنجاب حکومت چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اہم حکومتی فیصلوں میں بھی ان کی مشاورت دکھائی دیتی ہے، لیکن انکا فرنٹ لائن کردار اب پہلے کی طرح نہیں رہا۔ سلمان غنی کہتے ہیں کہ نواز شریف کے سیاسی طور پر قدرے غیر متحرک ہونے کی ایک وجہ یہ بھی یے کہ اس وقت ملکی سیاسی منظر نامے پر اسٹیبلشمنٹ کا کردار بہت ذیادہ بڑھا ہوا نظر آتا ہے، لہٰذا انکے خیال میں ان حالات میں شہباز شریف بطور وزیراعظم بہتر طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار سیاسی جماعتوں کی نااہلیوں کی وجہ سے بڑھا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے حالات میں نواز شریف ملکی سیاسی قیادت کے ساتھ مشاورت میں ہیں اور مسائل حل کرنے میں جہاں ضروری ہوتا ہے، وہاں کردار بھی ادا کرتے ہیں، جیسے پی ٹی آئی سے مذاکراتی کمیٹی نواز شریف نے ہی تجویز کی تھی۔ انہوں نے کہا: ’یہ تاثر ضرور موجود ہے کہ نواز شریف اپنی بیٹی کو وزارت عظمیٰ کی امیدوار بنانے کی تیاری کے لیے پیچھے بیٹھ کر کام کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف پر بھی نواز شریف کو اپنی بیٹی سے کم اعتماد نہیں، لہذا مستقبل میں بھی شہباز شریف کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسلم لیگ میں ’ن‘ چونکہ نواز شریف ہیں، اس لیے مرکزی کردار ان کا ہی رہے گا۔ وہ جسے چاہیں گے، آگے لائیں گے اور خود بھی قیادت جاری رکھ سکتے ہیں۔‘
منموہن سنگھ کس پاکستانی کے اکنامک وژن پر چل کر کامیاب ہوئے ؟
تاہم حسن عسکری کہتے ہیں کہ نواز شریف کے اپنے، مریم نواز یا شہباز شریف کے مرکزی کردار کا فیصلہ آئندہ کے سیاسی حالات کریں گے۔ ’ہمارے ہاں اقتدار میں لانے کے لیے سب سے اہم کردار اسٹیبلشمنٹ کا ہوتا ہے، لہذا اگر وہ نواز شریف یا مریم کی بجائے شہباز شریف کے ساتھ کام کرنا زیادہ بہتر سمجھیں گے تو پھر مستقبل میں یہی فارمولا چلے گا۔ اگر انہوں نے کوئی اعتراض نہ کیا یا تحریک انصاف سے حکومتی مذاکرات کا کوئی بہتر نتیجہ نکلتا ہے تو پھر سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوسکتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ملکی سیاست میں کل کیا ہو جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔