جنرل باجوہ کا فیض حمید کے حق میں بطور دفاعی گواہ پیش ہونے کا امکان

سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف جاری کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران اب یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ انکے حق میں بطور دفاعی گواہ پیش ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے جنرل قمر باجوہ کی سفارش پر جنرل فیض حمید کی بطور آئی ایس آئی چیف تقرری کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر کو وقت سے پہلے ہی اس عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ عمران خان کی وزارت عظمی کے دوران جنرل فیض حمید ہی تمام سیاہ و سفید کے مالک تھے اور انہیں عمران خان حکومت کا چیف منصوبہ ساز قرار دیا جاتا تھا۔

جنگ گروپ سے وابستہ سینیئر صحافی فخر درانی نے اپنی تازہ رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ کو فیض حمید کیخلاف کورٹ مارشل کی کارروائی میں بطور دفاعی گواہ پیش کرنے کیلئے طلب کیا جا سکتا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ جنرل فیض حمید نے خود پر لگائے گئے کچھ الزامات کے دفاع میں جنرل باجوہ کو بطور گواہ پیش کرنے کی درخواست کی ہے۔ جنرل فیض کی نمائندگی کرنے والی ماہرین قانون کی ٹیم نے اب تک اس بارے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا لیکن باہمی مشاورت جاری ہے۔

یاد رہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو 12؍ اگست 2024ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں آئی ایس پی آر نے تصدیق کی کہ ان کیخلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا باضابطہ آغاز کیا گیا ہے۔ 10؍ دسمبر 2024 کو، ریٹائرڈ جرنیل پر باضابطہ طور پر فرد جرم عائد کی گئی، اور اس دن سے ان کا مقدمہ فوجی عدالت میں باضابطہ طور پر شروع ہوا۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ جنرل فیض کے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی اب تک کئی سماعتیں ہو چکی ہیں۔ استغاثہ اس وقت اپنے گواہ پیش کر رہا ہے جس کے بعد دفاعی ٹیم اپنے گواہوں کو بلائے گی۔

سینیئر صحافی فخر درانی کے مطابق ذرائع نے تصدیق کی کہ اگر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو عدالت طلب کرتی ہے تو وہ لازمی پیش ہوں گے، کیونکہ قانوناً وہ پیش ہونے کے پابند ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ریٹائرڈ جرنیل فیض حمید نے اب تک فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی ہر سماعت میں ذاتی طور پر شرکت کی ہے، کیونکہ کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے ملزمان کیلئے ایسا کرنا لازمی ہے۔ ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ جنرل فیض جسمانی لحاظ سے تندرست اور اچھی صحت میں ہیں۔

صحافی فخر درانی بتاتے ہیں کہ انہوں نے جنرل فیض حمید کے مرکزی وکیل میاں علی اشفاق سے رابطہ کیا تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا دفاعی گواہوں کی فہرست کو حتمی شکل دی جا چکی ہے یا نہیں، یہ بھی پوچھا گیا کہ فیض کیخلاف کیس کا فیصلہ کب آئے گا اور کورٹ مارشل کی کارروائی اور کتنا عرصہ جاری رہے گی۔ جواب میں بتایا گیا کہ استغاثہ اور دفاعی گواہوں کی جرح کیلئے درکار وقت کی وجہ سے جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کا فیصلہ آنے میں ایک ماہ سے زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں میاں اشفاق نے کہا کہ، ’’صرف وہی لوگ اس پر تبصرہ کر سکتے ہیں جو ذاتی حیثیت میں اس کیس کی معلومات رکھتے ہوں یا پھر کیس کی پالیسی سے آگاہ ہوں۔ جرح ایک معمول کا طریقہ کار ہے، اور اس میں وقت لگتا ہے۔‘‘

کیا جنرل فیض عمران خان کیخلاف سلطانی گواہ بننے والے ہیں؟

جنرل فیض حمید کے وکیل سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا دفاعی گواہوں کی فہرست فائنل ہو گئی ہے اور ان کے دفاع میں کون پیش ہوگا۔ اس پر میاں علی اشفاق نے جواب دیا کہ جب استغاثہ اپنے مکمل شواہد پیش کر دے گا تو ہم اپنے گواہوں کا فیصلہ کریں گے۔ ہم دفاعی گواہوں کے بارے میں اپنا فیصلہ استغاثہ کے گواہوں کی ریکارڈنگ مکمل ہونے کے بعد کریں گے۔ یہ ابھی ابتدائی مرحلہ ہے، اور دفاعی گواہوں کو پیش کرنے کا مرحلہ ابھی نہیں آیا۔ میاں علی اشفاق سے یہ بھی پوچھا کہ کیا جنرل فیض حمید یا ان کی قانونی ٹیم جنرل قمر جاوید باجوہ کو بطور دفاعی گواہ بلائے گی؟ اس پر میاں اشفاق نے جواب دیا کہ، ’’میں جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کر رہا۔ معاملہ کیس میں ہونے والی پیشرفت اور اس پیشرفت کے نتیجے میں گواہان کے مطابقت رکھنے کے متعلق ہے۔ ہمیں اس بات پر بھی غور کی ضرورت ہے کہ آیا یہ بات ہمارے لیے سوُد مند ثابت ہو گی بھی کہ نہیں کیونکہ یہ ہمارے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اد فیصلے کو حتمی شکل دینے سے پہلے کافی غور و خوض ہوگا۔ جب ان سے ایسی میڈیا رپورٹس کے بارے میں پوچھا گیا جن میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وکلاء کی ٹیم نے فیض حمید کے دفاع میں جنرل باجوہ کو پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو میاں علی اشفاق کا کہنا تھا، ’’یقین مانیں میں شاید ہی کسی میڈیا والے سے رابطے میں ہوں۔ یہ صحافی گھر بیٹھے گواہوں کی فہرستیں تخلیق کر رہے ہیں۔ تمام باتیں کیس کی کارروائی اور استغاثہ کے گواہان پر منحصر ہیں، کسی بھی ریٹائرڈ یا حاضر سروس گواہ کو بلانے کا فیصلہ بعد میں ہو گا۔

Back to top button