حکومت کا ضلع کرم میں کلیئرنس آپریشن کا فیصلہ
حکومت خیبرپختونخوا نے کرم کے مشران کو ڈپٹی کمشنر پر حملے میں ملوث ملزمان کو حوالے کرنے کا کہہ دیا ہے، عدم تعاون کی صورت میں ہر قسم کے معاوضے اور امداد کو روک دیا جائے گا اور علاقے میں کلیئرنس آپریشن بھی شروع کیا جائے گا۔
ضلع کرم کی صورت حال پر اعلیٰ سطحی اجلاس کوہاٹ میں ہوا جس میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس سمیت دیگر افسران نے شرکت کی اور اہم فیصلے کیے گئے۔
اعلیٰ سطحی اجلاس اعلامیے کے مطابق ضلع کرم امن معاہدے پر دستخط کرنے والے مشران کو امن معاہدے کے نفاذ پر جوابدہ بنایا جائےگا اور ڈپٹی کمشنر پر حملے کے تمام مجرموں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمے درج کیے جائیں گے۔
اجلاس کے شرکاء نےکہا کہ مشران کو 4 جنوری کے حملےکے مجرموں اور سہولت کاروں کو حوالے کرنے کا کہہ دیا گیا ہے اور عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں مجرموں کو حوالے نہ کرنے تک ہرقسم کے معاوضے اور امداد کو روک دیا جائے گا، فرقہ ورانہ انتشار کی پشت پناہی کرنےوالے سرکاری افسران کے خلاف تادیبی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی۔
اعلامیے کےمطابق مجرموں کی حوالگی میں عدم تعاون پر کلیئرنس آپریشن کی ضرورت پڑنےپر آبادی کو عارضی طورپر منتقل کیا جائےگا اور مختلف خوارج کے سر کی قیمت کا اعلان کیا جائےگا۔
اجلاس میں کہاگیا ہےکہ ملزمان کی گرفتاری کےلیے کارروائی کی جائےگی، ٹل پاراچنار روڈ توراورائی ششو روڈ پر سخت انتظامی اقدامات کیےجائیں گے، اجناس کے قافلےکو جلد روانہ کیا جائے گا اور قافلوں کی آمدورفت کےدوران سڑکوں پر کرفیو ہوگا،دفعہ 144 کے دوران اسلحہ رکھنے والے کو دہشت گرد تصور کیا جائےگا۔
اجلاس یہ بھی فیصلہ کیاگیا کہ ڈی پی او کرم کو انسداد فسادات کے آلات،لیڈیز پولیس اور مطلوبہ وسائل فراہم کیے جائیں گے،پولیس ٹل پاراچنار روڈ پر کسی بھی غیر قانونی ناکہ بندی اور ہجوم کو ہٹائےگی، ٹل پاراچنار روڈ کی سکیورٹی کےلیے پولیس کو مطلوبہ تعداد فراہم کی جائےگی، پولیس کی مدد کےلیے دیگر قانون نافذ کرنےوالے اداروں بشمول ایف سی کو ضرورت کے مطابق تعینات کیا جائےگا۔
خیال رہےکہ 4 جنوری کو لوئر کرم کے علاقے بگن میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے ڈپٹی کمشنر کرم سمیت سات افراد زخمی ہو گئے تھے، کرم کےلیے تین ماہ بعد کھانےپینے کا سامان لےجانے والا قافلہ بھی روک دیا گیا تھا۔