لڑکیوں کیلئے تعلیم کی حمایت پر حامد الحق کو دھمکیاں دی گئیں

سکیورٹی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ خیبرپختونخوا کی معروف دینی درسگاہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی جامع مسجد میں خودکش دھماکے میں شہید ہونے والے جمعیت علمائے اسلام (سمیع) کے سربراہ مولانا حامد الحق کو لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں بات کرنے پر تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں حالانکہ ان کے والد مولانا سمیع حق کو بابائے طالبان کہا جاتا تھا۔

ڈان نیوز کے مطابق سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ دارالعلوم حقانیہ میں خود کُش حملہ فتنہ الخوارج یعنی طالبان اور انکے سر پرستوں کی مذموم کارروائی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مولانا حامد الحق کو خودکش حملے میں شہید کرنے والا بمبار تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق مولانا حامد الحق حقانی نے گزشتہ ماہ رابطہ عالم اسلامی کے تحت ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک مؤقف اختیار کیا تھا، مولانا حامد الحق نے افغانستان اور پاکستان میں طالبان کی جانب سے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کی کوششوں کو بھی خلاف اسلام قرار دیا تھا، اس بیانیے اس کے بعد سے انہیں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے قتل دھمکیاں بھی دی گئی تھیں، چنانچہ انہیں دو درجن سکیورٹی اہلکار مہیا کیے گئے تھے جو خودکش دھماکے کے وقت بھی دارالعلوم کی مسجد میں موجود تھے۔ تاہم خود کش بمبار ایک شاگرد کے بھیس میں مولانا حامد الحق کے گلے ملا اور پھر اپنی خود کش جیکٹ دھماکے سے اڑا دی۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق نماز جمعہ کے دوران دھماکا اس بات کی غمازی کرتا ہے کے فتنہ الخوارج، انکے پیروکاروں اور سہولت کاروں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ یاد رہے کہ دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں 28 فروری کو نماز جمعہ کے دوران خودکش حملے میں جمعیت علمائے اسلام (سمیع) کے سربراہ مولانا حامد الحق سمیت 5 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوگئےتھے۔

مولانا حامد الحق ممتاز عالم دین سمیع الحق حقانی کے صاحبزادے تھے، جنہیں ’بابائے طالبان‘ بھی کہا جاتا تھا، انہیں 2018 میں پنڈی میں قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد حامد الحق نے پشاور سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وسیع و عریض دارلعلوم حقانیہ میں بطور نائب مہتمم ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔

دارالعلوم حقانیہ پاکستان کے بڑے اور پرانے مدارس میں سے ایک ہے، جہاں تقریباً 4 ہزار سے زائد طلبہ رہائش پذیر ہیں، انہیں مفت تعلیم کے ساتھ کپڑے اور کھانا بھی دیا جاتا ہے، دارالعلوم حقانیہ کی ویب سائٹ کے مطابق کئی سرکردہ طالبان رہنما بشمول حقانی نیٹ ورک کے رہنما اور افغانستان کے موجودہ وزیر داخلہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے بھی اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ سمیع الحق حقانی کی پہلی بیوی کے دوسرے بیٹے حامد الحق نے اپنی دینی اور دنیاوی تعلیم اپنے دادا مولانا عبدالحق سے مدرسہ کے احاطے میں واقع حقانیہ ہائی اسکول سے حاصل کی۔ انہوں نے نوشہرہ ڈگری کالج سے اسلامیات میں بیچلرز مکمل کیا اور 80 کی دہائی کے آخر میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔

مولانا حامد الحق نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز 1985 میں جمعیت علمائے اسلام (سمیع) کی طلبہ ونگ سے بطور سیکریٹری جنرل کیا۔ وہ نومبر 2002 سے 2007 تک قومی اسمبلی کے رکن رہے اور 2018 میں اپنے والد کے قتل کے بعد جے یو آئی (سمیع) کے سربراہ مقرر ہوئے۔

مولانا حامد الحق دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی رہے، جو کئی سالوں سے غیر فعال ہے، یہ کونسل بنیادی طور پر جماعت الدعوۃ اور اہل سنت والجماعت کی چھتری تلے بنایا گیا تھا، دفاع پاکستان کونسل کا قیام 2011 میں پاک-افغان سرحد پر امریکی افواج کے ہاتھوں پاکستانی افواج کی شہادت کے ردعمل میں کیا گیا تھا، تاہم یہ 2018 میں بانی مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد غیر فعال رہی۔

شہید مولانا حامد الحق کی قیادت میں 2023 میں دوبارہ دفاع پاکستان کونسل وجود میں آئی، جس نے مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر ملک دشمن سیاستدانوں کی طرف سے ’قومی مفادات‘ کو نقصان پہنچانے کی ’سازشوں‘ سے خبردار کیا۔ گزشتہ برس مولانا حامد الحق نے ’مذہبی سفارت کاری‘ کرتے ہوئے افغانستان جانے والے پاکستانی علماء کے ایک وفد کی قیادت کی تھی، انہوں نے اففان طالبان رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں، اپنے دورے کے بارے میں مولانا حامد الحق نے بتایا تھا کہ اس سے اسلام آباد اور کابل کے درمیان عدم اعتماد کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔

طالبان دہشت گردوں نے بابائے طالبان کے بیٹے کو کیوں ٹارگٹ کیا؟

اپنے دورہ افغانستان کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا حامد الحق نے کہا تھا کہ مدرسہ حقانیہ نے امریکی اور افغان سفیروں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم کی میزبانی بھی کی تھی، جبکہ ان کے والد مولانا سمیع الحق نے خطے میں مفاہمت اور امن لانے کے لیے پاکستان، افغانستان اور طالبان کے درمیان اہم ثالثی کا کردار ادا کیا۔ حامد الحق نے کہا تھا کہ ’کئی لوگ ہمارے مدرسے کو دہشت گردوں کی یونیورسٹی کہتے ہیں۔ لیکن بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسے تمام لوگ اسلام کے خلاف ہیں، ہمیں ایک دہشت گرد تنظیم کا کیمپس قرار دے کر وہ لوگوں کو ہم سے اور اسلام سے خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں۔‘

2021 میں ڈیلی ٹائمز کے ساتھ ایک اور انٹرویو میں مولانا حامد نے زور دیا تھا کہ پاکستان کو ’صورتحال کو مستحکم کرنے‘ کے لیے کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے، انکا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان نے بہت کچھ کیا ہے، لیکن اسے اب بھی دہشت گرد گروپوں کی بحالی کو روکنے کے لیے ایک طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ مولانا حامد الحق نے کہا تھا کہ ہمیں انٹیلی جنس پر مبنی پالیسیاں، مضبوط انسداد دہشت گردی قانونی فریم ورک اور غیر مراعات یافتہ لوگوں کی شکایات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

Back to top button