کیا امریکہ نے انڈیا کی محبت میں پاکستانی پر پابندیاں لگائی ہیں؟
امریکہ کی جانب سے پاکستان کے میزائل پروگرام سے جڑی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کا بنیادی مقصد بھارت کو خوش کرنا اور اس خطے میں اسکا تسلط قائم کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بھارت کو اپنے دشمن چین کے خلاف ایک مضبوط اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے، اور انڈیا اپنے ہمسایہ پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کو خطے پر اپنے تسلط کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عباس ناصر روزنامہ ڈان میں اپنے تازہ تجزیے میں کہتے ہیں کہ امریکا، اسرائیل اور خطے میں اسلامی تعاون تنظیم میں اس کے اتحادیوں نے مل کر ایک اور او آئی سی رکن ایران اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کی حمایت یافتہ تنظیموں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ایران کی سب سے اہم پراکسی، حزب اللہ پر براہ راست حملے اور شامی حکومت کو برطرف کرنے میں مدد کر کے ان ممالک نے حزب اللہ کے لیے سپلائی کے راستے تنگ کردیے ہیں۔ شام میں اسرائیل کی حالیہ پیش قدمی سے انہیں شام کے ماؤنٹ ہرمین جیسے بالائی علاقوں کا قبضہ حاصل ہوگیا ہے جہاں سے وہ مغرب سے حزب اللہ کا گڑھ سمجھے جانے والے جنوبی لبنان جبکہ مشرق سے دمشق پر نظر رکھ سکتا ہے۔
عباس ناصر کہتے ہیں کہ اب جو بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ ترین سیکیورٹی اہلکار کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکا کو پاکستان کے دور مار بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے یہ خدشہ ہے کہ اس کی مار امریکہ تک ہو گی۔ یہ دعویٰ تب سامنے آیا جب امریکا نے پاکستان کی حکومتی تنظیم اور تین پاک-چین فرمز پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا۔
یہ پابندیاں عائد ہونے کے بعد امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فائنر نے کہا کہ پاکستان کے اقدامات کو امریکا کے لیے اُبھرتے ہوئے خطرے کے علاوہ کسی اور تناظر میں دیکھنا مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ ’پاکستان نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل سسٹم سے لے کر ایسے آلات تک جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی تیار کی ہے جس سے وہ نمایاں طور پر بڑی راکٹ موٹرز کو آزمانے کے قابل ہوجائے گا۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان جنوبی ایشیا سے باہر اور امریکی اہداف کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے‘۔
تاہم حکومت پاکستان نے امریکی الزامات اور خدشات کو سختی سے رد کیا ہے۔ عباس ناصر کا کہنا ہے کہ کوئی بھی قابلِ فہم تجزیہ کار اس دعوے کو مسترد کر دے گا۔ کسی بھی صورت میں پاکستان اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ دنیا کے کسی بھی تنازع میں اسکی امریکا سے کوئی چپقلش ہو اور آخر پاکستان ایسی بیلسٹک میزائل صلاحیت کا حصول کیوں چاہے گا کہ جس سے وہ سپرپاور امریکا کو نشانہ بنا سکے؟ پاکستان کا پورا قومی سلامتی کا نظریہ ممکنہ بھارتی خطرے کے گرد گھومتا ہے جبکہ 1948ء، 1965ء، 1971ء اور کارگل کے تنازعات کے پیش نظر، پاکستان کی یہ تشویش درست بھی ہے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ پاکستانی میزائیل پروگرام بارے امریکی دعووں کے پیچھے اصل وجوہات کیا ہیں اور اتنے قلیل مدتی وقت میں امریکا نے پاکستان کے میزائل سسٹم پر تیسری اور چوتھی دور کی پابندیاں کیوں لگائی ہیں؟ عباس ناصر کہتے ہیں کہ جب امریکا نے کہا کہ پاکستان، امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کی ممکنہ صلاحیت حاصل کرسکتا ہے تو میرے ذہن میں پہلا یہی خیال آیا کہ شاید اسرائیل کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے۔ لیکن میں نے یہ خیال فوری طور پر رد کردیا۔ وجہ یہ تھی کہ پاکستان نے کبھی بھی قضیہ فلسطین کے لیے ’اخلاقی اور سفارتی‘ حمایت کے علاوہ کسی اور طرح کی حمایت کی پیشکش نہیں کی اور اس وقت بھی وہ غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف سفارتی حمایت سے بڑھ کر کوئی سخت مؤقف اختیار کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔
عباس ناصر کہتے ہیں کہ ایک جانب اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیاں اور بمباری جاری ہے جن میں نومولود اور بچوں کو قتل، زخمی اور عمر بھر کے لیے معذور کیا جارہا ہے کیونکہ اسرائیل کا یہ ماننا ہے کہ غزہ میں بشمول بچوں کے کوئی بھی ’معصوم یا بےگناہ‘ نہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان کی معاشی صورت حال ہے جو شدید مشکلات سے دوچار ہے۔
اس تلخ حقیقت کے پیش نظر پاکستان کی فوجی حکمران اشرافیہ اور عوامی لیڈران چاہ کر بھی فلسطینیوں کے حق میں کچھ نہیں کر سکتے۔ پاکستان امریکی زیرِکنٹرول بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور خطے کے دولت مند امریکی اتحادیوں کی جانب سے ملنے والی امداد پر انحصار کرتا ہے۔ کسی بھی غلط اقدام سے ڈالرز کی ترسیل کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔
عباس ناصر کے بقول امریکا کا بھارت کے ساتھ ایک خصوصی تعلق ہے جو کہ اس بات سے ثابت شدہ ہے کہ وہ آزادانہ طور پر کم نرخوں پر ایرانی اور حتیٰ کہ روسی تیل کی درآمدات کرتا ہے اور اسے بین الاقوامی ممالک خصوصا امریکا کی جانب سے کسی روک ٹوک کا سامنا نہیں۔ پاکستان جیسے ممالک جو تیل کی درآمدات کی بھاری لاگت کے بوجھ تلے دبے ہیں، وہ بھی کم نرخوں پر ایرانی تیل اور پیٹرولیم مصنوعات درآمد کر سکتے ہیں لیکن وہ امریکا کی ناراضی کے خوف کے پیش نظر ایسا نہیں کرتے۔ بھارت 1.4 ارب عوام کی بڑی مارکیٹ ہے جس میں 40 کروڑ سے زائد افراد کا تعلق متوسط طبقے سے ہے، اسے نہ صرف اپنی مارکیٹ کی وجہ سے بلکہ اپنے رقبے اور جغرافیائی پوزیشن کے حوالے سے بھی خصوصی توجہ ملتی ہے۔ اسے خطے میں چین کے حریف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ بھارت کو کواڈ کے گروپ میں شامل کرنے کا مقصد یہی تھا کہ خطے میں چین کے بڑھتے معاشی اثر و رسوخ اور عسکری غلبے کو محدود کیا جا سکے۔
عباس ناصر کہتے ہیں کہ 33 برس قبل سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یہ توقع تھی کہ اب اس یک قطبی دنیا میں امریکی عالمگیریت کو کوئی بھی خطرہ نہیں۔ لیکن اس کے بعد چین نے معاشی اور عسکری محاذ پر تیز ترین ترقی کی جس سے امریکا کے عالمی عزائم کو چیلنجز لاحق ہوئے۔ برکس اتحاد کا قیام بھی امریکا کے لیے باعثِ تشویش تھا۔ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ برکس کی جانب سے ادائیگی کا متبادل نظام متعارف کرنے سے ڈالر کمزور ہوگا۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ نو رکنی تعاون تنظیم کے ممالک یا اس میں شمولیت کے خواہش مند ممالک کو شمولیت پر 100 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
صدر زرداری اور شہباز شریف ملاقات دوبارہ بے نتیجہ کیوں رہی؟
عباس ناصر کہتے ہیں کہ پاکستان کے میزائل سسٹم کے حوالے سے امریکا کا حالیہ عجیب بیان شاید بھارت کو خوش کرنے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے جو چین کے خلاف بھارت کو مضبوط اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے، پھر چاہے بھارت اس مقصد میں مددگار ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔ بھارت، پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کو خطے پر اپنے تسلط کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے اور اکثر کسی بچے کی طرح اس مسئلے کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔