کیا ریاستی کنٹرول سے پاکستان ایک شکاری ریاست بن چکا ہے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان ایک شکاری ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ آج بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بنیادی عوامی حقوق دینے سے انکار کا نتیجہ ہے۔ رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ بنیادی شہری آزادی اور انسانی حقوق کی مسلسل پامالی کی وجہ سے عسکریت پسندی کی لپیٹ میں ہے۔ دوسری جانب ریاستی مشینری کا استعمال اسکی رٹ مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کر رہا ہے۔ انکا کہنا یے کہ بلوچ عسکریت پسندوں کو دبانے کے لیے ریاست کی جانب سے جابرانہ ہتھکنڈوں کا استعمال بلوچستان کے حالات بہتر کرنے کی بجائے انہیں ابتری کی طرف لے جا رہا ہے۔

انگریزی روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے اپنے تازہ تجزیے میں زاہد حسین کہتے ہیں کہ حکومت صرف اسی صورت میں اپنے لوگوں کی وفاداری حاصل کرسکتی ہے کہ جب آبادی کی اکثریت حکومت کو اپنی فلاح کے لیے کام کرتے ہوئے دیکھے۔ لیکن جب کوئی حکومت عوام کی بہبود کے لیے کام کرنے کی بجائے ان پر ریاستی شکنجہ کسنے لگ جائے تو وہ عوام میں اعتماد اور ساکھ کھو دیتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے جائز جمہوری حقوق مانگنے والوں کو خاموش کروانے کے لیے طاقت کا استعمال اور غیرمنصفانہ سلوک اندرونی مسائل اور دشمنی کو جنم دیتا ہے جس سے ریاستی کمزوری میں اضافہ ہوتا ہے اور بیرونی قوتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ ایک شکاری ریاست یہ توقع نہیں رکھ سکتی کہ اس کے عوام ہر مشکل وقت میں اسکا ساتھ دیں گے۔ لہذا آج ریاست پاکستان کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ جب کوئی ریاست اپنے ہی لوگوں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کرتی ہے تو درحقیقت یہ ریاست کی کمزوری اور عدم تحفظ کی نشانی ہے۔ ایک غیرمحفوظ ریاست ہر شہری کو ممکنہ حریف کے طور پر دیکھتی ہے جو بیرونی دشمنوں کے ساتھ سازش کر رہا ہوتا ہے۔ اپنے ہی شہریوں سے خوفزدہ اور مشینری سے لیس ریاست اپنی ہی بقا کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ یہ ایک شکاری ریاست میں تبدیل ہوجاتی ہے جو نہ تو قانون کی حکمرانی کی پرواہ کرتی ہے اور نہ ہی عدلیہ جیسے اداروں کو اپنے احتساب کی اجازت دیتی ہے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ حکومت لوگوں کے بنیادی حقوق چھیننے سے مضبوط نہیں ہوتی بلکہ کھلے عام تنقید برداشت کرنے اور عوامی احتساب کا نظام بنانے سے مضبوط ہوتی ہے۔ آج ایک ایسی حکومت برسر اقتدار ہے جو کسی کو اپنے فیصلوں کے لیے جواب دہ نہیں ہے۔ یہ اپنے ہی شہریوں کا اعتماد کھو چکی ہے۔ پاکستان کی سلامتی سے متعلقہ بہت سے مسائل حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری سے پیدا ہوئے ہیں۔ لہذا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک کمزور ریاست ہے جس کا نظام تقریباً ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔موجودہ حکومت پر سیکیورٹی فورسز کا کنٹرول ہے جو ملکی اداروں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے ججز کی آزادی چھین لی گئی ہے اور قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی ہے۔ فوج کے زیر اثر انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے والی حکومت اپنی قانونی ساکھ کھو چکی ہے۔ عملی طور پر دو صوبوں کو عسکریت پسندی نے اپنے محاصرے میں لیا ہوا ہے جس سے پاکستان کی وحدت خطرے میں ہے۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ سندھ میں بھی عوام کے بڑھتے عدم اطمینان کی وجہ یہی ہے کہ صوبے کے عوام کی مرضی کے خلاف نئی نہریں بنانے کے منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں جس سے سندھ پانی کے شدید بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ فوج کے ایما پر بنائی گئی ایس آئی ایف سی نے چولستان کی بنجر زمین آباد کرنے کے لیے سندھ کے پانی سے پنجاب میں چھ نہریں بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سندھ کے باسیوں کی جانب سے اس فیصلے کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ کا جبر قرار دیا جا رہا ہے۔

زاہد حسین کے بقول یہ درست ہے کہ ہمیں پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث بیرونی قوتوں کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے لیکن اس مداخلت کی بڑی وجہ حکومت کی اپنی ناکامی ہے۔ جب سرحد پار سے دہشتگردی ہو تو فوج کی جوابی کارروائی کا مطالبہ کرنا تب تک فائدہ مند نہیں ہوگا جب تک ہم اپنے اندرونی معاملات حل نہیں کرلیتے۔ اگر حکومت اپنے عوام کے تحفظات اور ضروریات کو پورا نہیں کر پاتی تو دیگر ممالک کے خلاف کسی بھی طرح کی فوجی کارروائی پاکستان کو مضبوط نہیں بنائے گی۔ آرمی چیف کے ایک حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ’سخت ریاست‘ وہ ہوتی ہے جو اپنی پالیسیاں مؤثر طریقے سے نافذ کرتی ہے، اپنا کنٹرول مضبوط رکھتی ہے اور ملکی مفادات پر توجہ دیتی ہے۔ لیکن سوال یہ یے کہ کیا ہمارے پاس طاقت کے استعمال کے علاوہ عوام کا اعتماد بحال کرنے کا کوئی واضح منصوبہ موجود ہے؟

ایئر چیف کی دوڑ سے باہر ہونے والا ایئر مارشل، کورٹ مارشل کا شکار

زاہد حسین کا کہنا ہے کہ ایک شکاری ریاست لوگوں کی نمائندگی کی پروا نہیں کرتی ہے۔ بلوچستان میں ہم جس طرح معاملات سنبھال رہے ہیں، اس سے نوآبادیاتی رویے جھلکتے ہیں جہاں عوام کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا جاتا تھا۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ایک ’شکاری ریاست‘ میں تبدیل ہوچکا ہے، جہاں طاقتوروں کا ایک چھوٹا گروہ پالیسی سازی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے جبکہ آبادی کی اکثریت اس کے نتائج بھگتتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان آج گونا گوں مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ ریاست کو سمجھنا ہوگا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ تیزی سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی ہے لیکن جب عوام میں شدید بیگانگی اور محرومی کا احساس پنپ رہا ہو تو دہشتگردی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ریاستی جبر کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی اضطراب کو امن و امان کا معاملہ قرار دینا، سیاسی ذمہ داری سے بھاگنے کے مترادف ہے۔ یقیناً طاقت کے استعمال سے امن لانے میں مدد مل سکتی ہے لیکن اگر عوامی عدم اعتماد کی وجوہات کا ازالہ کرنے پر توجہ نہیں دی جائے گی تو موجودہ صورتحال مزید سنگین صورت اختیار کر جائے گی۔

Back to top button