کیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں دجال کا ظہور ہو چکا ہے؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ دنیا کو جس دجال کا انتظار تھا اس کا ظہور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں ہو چکا ہے۔ لہٰذا صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ ﷲ تعالیٰ اب دنیا اور زمین دونوں پر رحم کرے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے تابڑ توڑ اقدامات نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ موصوف نے اب یہ اعلان کر ڈالا ہے کہ امریکہ آنے والے تارکین وطن کو بے دخل کرنے کے بعد واپس ان کے ملکوں میں بھیجنے کی بجائے گوانتانامو کی جیل میں ڈالا جائے گا جہاں 30 ہزار قیدیوں کی گنجائش موجود ہے۔ ٹرمپ نے امریکی جیلوں میں بند غیرقانونی شہریوں کو اپنے پہلے صدارتی دن ہی نکالنے کا حکم جاری کر دیا۔ اس عمل کا آغاز کولمبیا کے شہریوں سے کیا گیا اور امریکی حکومت نے کولمبین شہریوں کے دو جہاز بھر کر انھیں بگوٹا بھجوا دیا، کولمبیا کے صدر پیٹرو نے ان جہازوں کو لینڈنگ کی اجازت نہ دی، ٹرمپ کو پتا چلا تو اس نے نہ صرف کولمبیا کی امپورٹس پر 25 فیصد ڈیوٹی لگا دی بلکہ اس ڈیوٹی کو ایک ہفتے میں 50 فیصد تک لے جانے کا حکم بھی دے ڈالا۔
اسکے علاوہ صدر ٹرمپ نے کولمبین حکومت کے تمام سرکاری عہدیداروں کے امریکا میں سفر اور حکومتی پارٹی کے تمام ارکان، ان کے خاندانوں اور سپورٹرز کے ویزے بھی منسوخ کر دیے، ٹرمپ نے یہ تمام احکامات ایکس پر ٹویٹ کے ذریعے دیے، چناں چہ صرف تین گھنٹے بعد کولمبیا کی حکومت گھٹنوں پر آ گئی اور اس نے نہ صرف امریکی جہازوں کو اترنے اور کولمبین تارکین وطن کو واپس لینے کی اجازت دے دی بلکہ امریکا کی تمام پابندیاں اور شرائط بھی مان لیں۔ یہ ٹرمپ کا پہلا “ڈیمو” تھا، ٹرمپ نے اس کے ساتھ پوری دنیا میں امریکی امدادی سرگرمیاں بھی معطل کر دیں، اور عالمی فورمز اور ایگریمنٹس سے بھی نکل گیا، یوکرائین جنگ میں یوکرائین کی مدد سے بھی ہاتھ کھینچ لیا، اس نے میکسیکو کو بھی ٹائیٹ کر دیا، افغانستان اور جنگ زدہ افریقی ملکوں کی امداد بھی بند کر دی اور ماحولیات کی حفاظت کے لیے رقم دینے سے بھی انکار کر دیا، ٹرمپ نے اس کے ساتھ غزہ کے مسلمانوں کو نقل مکانی کرنے اور اردن اور مصر کو انھیں اپنے علاقوں میں آباد کرنے کا حکم بھی دے دیا۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ آپ تصور کیجیے اگر اس حکم پر عمل ہو جاتا ہے تو غزہ کا علاقہ بھی فلسطین کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور امریکا کے پاس چلا جائے گا یا پھر ٹرمپ اسے اسرائیل کے حوالے کر دے گا اور یوں اسرائیل کے سائز میں اضافہ ہو جائے گا جس کے بعد اسرائیل حضرت سلیمان ؑ کے زمانے کے اسرائیل کی طرف بڑھنے لگے گا، اسرائیلی اسے “گریٹر اسرائیل” کہتے ہیں، مدینہ منورہ بھی اس کا حصہ ہے، مصر اور اردن سردست انکار کر رہے ہیں لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ ڈٹ گیا تو کولمبیا کی طرح ان کو بھی امریکا کا حکم ماننا پڑے گا ورنہ امریکا ان کی امداد بند کر دے گا اور یہ دونوں بھی گھٹنوں پر آنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
دوسری طرف ٹرمپ نے سعودی کراؤن پرنس سے امریکا میں ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا مطالبہ کر دیا، محمد بن سلمان نے فوری طور پر 600 ارب ڈالر کی پیش کش کرکے جان چھڑائی، سعودی عرب کے بعد یو اے ای اور قطر کی باری ہے، انھیں بھی کم از کم پانچ سو ارب ڈالر امریکا میں لگانا پڑیں گے، ٹرمپ امپورٹس کا ٹیرف بھی بڑھا کر رہے گا،یہ امپورٹس کو بھی نصف تک لے آئے گا، امریکا میں امیگریشن پربھی پابندی لگ چکی ہے اور چین اور امریکا کی معاشی لڑائی بھی اب سر پرکھڑی ہے لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے؟ اس کے دو جواب ہو سکتے ہیں۔
بقول جاوید چوہدری پہلا جواب یہ ہے کہ ٹرمپ صرف اور صرف امریکا کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ وہ امریکی عوام کا صدر ہے اور امریکا کے صدر کو اپنے لوگوں کے مفاد کو فوقیت دینی چاہیے اور یہ دے رہا ہے، اس کے فیصلوں سے اب امریکی معیشت بہتر ہو گی، مہنگائی میں کمی آئے گی، بے روزگاری نیچے آئے گی، اسٹاک ایکس چینج میں استحکام آئے گا اور عام امریکی شہری کا معیار زندگی بلند ہو گا، یہ چین اور بھارت سے درآمدات کے بجائے "میڈ ان امریکا” کو بھی بڑھانا چاہتا ہے تاکہ امریکی صنعت "ری وائیو” کر سکے، ٹرمپ بزنس مین ہے اور بزنس مین پیسہ بچانا اور کمانا جانتے ہیں لہٰذا اس کی نظر ان معاشی سوراخوں پر ہے جہاں سے امریکی سرمایہ رس رہا ہے، یہ امریکا پر تارکین وطن کا بوجھ بھی کم کر رہا ہے، اس کا خیال ہے ہم بھکاریوں اور مجرموں میں اضافہ کر رہے ہیں جس سے ہماری معیشت کریش کر رہی ہے اور یہ امریکا کو گریٹ بنانا چاہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ٹرمپ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ وہ کوئی بڑا پلان تیار کر رہا ہے، وہ بڑا سوچ رہا ہے، امریکا اسلحے اور وار ٹیکنالوجی میں نمبرون ہے، اس کے پاس اس وقت کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے پیسہ، امریکا کی معیشت بری طرح مقروض ہو چکی ہے اور اس گرتی ہوئی معیشت اور قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے امریکا کوئی بڑی گیم پلان نہیں کر سکتا، دوسری طرف دنیا میں اگر کسی قوم یا ملک کے پاس سرمایہ ہے تو وہ ہے چین ، چین کے پاس فارن ایکس چینج ریزروز بھی ہیں اور ٹیکنالوجی بھی، چین نے چھ ملین ڈالر میں "ڈیپ سیک” چیٹ ایپ بنا کر نہ صرف امریکی چیٹ جی پی ٹی کا بیڑہ غرق کر دیا بلکہ امریکا کا ٹیکنالوجی کا غرور بھی مٹی میں ملا دیا ہے، چناںچہ ٹرمپ کو اس وقت صرف دو چیزیں چاہییں، وہ ہیں ٹیکنالوجی اور پیسہ اور یہ بڑی تیزی سے اس سمت دوڑ رہا ہے۔
جاوید چودھری کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی جس طرح ٹیکنالوجی کو فوقیت دی، اس نے جس طرح “آئی ٹی” کی کمپنیوں کو ساتھ ملایا ، جس طرح ان میں سرمایہ کاری شروع کرائی،جس طرح سرمائے کی لیکیج روکنا شروع کی، جس طرح پیسہ جمع کرنا شروع کیا اور جس طرح امریکا کو دوسرے ملکوں کی محتاجی اور ضرورت سے آزاد کرنا شروع کیا وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اسے بہت جلدی ہے، وہ جلد سے جلد امریکا کا امپورٹس پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے، وہ اپنے ریزروز بہتر بنانا چاہتا ہے تاکہ یہ اپنا منصوبہ مکمل کر سکے، مجھے ڈونلڈ ٹرمپ کے اندر چین کے موجودہ صدر شی چن پنگ کی سپرٹ بھی نظر آ رہی ہے۔
چین نے مصنوعی ذہانت کے میدان میں امریکہ کو کیسے شکست دی؟
جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ صدر شی نے 2018 میں خود کو تاحیات صدر بنوا لیا تھا، مجھے خطرہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ بھی کہیں خود کو تاحیات صدر نہ بنوا لے یا امریکا کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنی حکومت کا اعلان نہ کر دے۔ اگر اس کا پلان یہ ہے تو پھر ٹرمپ اس کا آغاز کینیڈا اور گرین لینڈ سے کرے گا۔ اگر اس نے گرین لینڈ اور کینیڈا پر قبضہ کر لیا تو پھر اسے تاحیات صدر بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو پھر آپ دنیا کی صورت حال کا اندازہ خود کر لیجیے، ایک طرف روس میں پیوٹن تاحیات صدر ہوگا، دوسری طرف چین میں شی تاحیات صدر ہوگا اور تیسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کی واحد سپر پاور کا تاحیات صدر ہو گا۔ اگر اس کے بعد بھی تیسری عالمی جنگ شروع نہیں ہوتی تو پھر یہ واقعی معجزہ ہو گا، ﷲ تعالیٰ اب دنیا اور زمین دونوں پر رحم کرے ، کیوں؟ کیوں کہ مجھے محسوس ہو رہا ہے دجال آ چکا ہے۔