کیا عمران خان کی تاش کے پتے ایک ایک کر کے ختم ہو گئے ہیں ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ 5 اگست کی احتجاجی کال کی بری طرح ناکامی سے ثابت ہو گیا ہے کہ عمران خان کی تاش کے پتے اب ایک ایک کر کے ختم ہوتے جا رہے ہیں اور وہ مستقبل میں جیل کے سوا اور کسی بھی خانے میں فٹ ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
بی بی سی اردو کے لیے اپنے سیاسی تجزیے میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ میکیاولی پندرہویں صدی کا مفکر اور اہل سیاست سے وابستہ شخصیت تھا جس کی مشہور کتاب ’دی پرنس‘ سیاست کے کھلاڑیوں اور طالب علموں کے لیے آج بھی اہم سمجھی جاتی ہے۔ میکیاولی نے اپنی کتاب میں سیاست کو اخلاقیات سے الگ قرار دیا ہے، میکیاولی سیاست میں مستقل دوست اور مستقل دشمن بنانے کے حامی نہیں، وہ لکھتے ہیں کہ ’سیاست دان کو اپنے لیے بچھائے جال کو سمجھنے کے لیے لومڑی جیسا اور بھیڑیوں کو ڈرانے کے لیے شیر جیسا ہونا چاہیے۔ اسکے مطابق جو لوگ صرف شیر بننے کی کوشش کرتے ہیں وہ بیوقوف ہوتے ہیں۔
میکیاولی لکھتے ہیں کہ ’چونکہ لوگ اپنے بارے میں خود فیصلے کرنا پسند کرتے ہیں لہذا پرنس کو وہ ہنر آنا چاہیے جس سے وہ معاملات خود کنٹرول کر سکے، نہ کہ اسکے معاملات دوسروں کے کنٹرول میں ہوں۔
دی پرنس میں میکیاولی لکھتے ہیں کہ ’آپ کو ایسا حکمران ہونا چاہیئے جس سے لوگ خوفزدہ ہوں۔ ہمارے ہاں شاید ہی کوئی سیاست دان ہو جو میکیاولی کے نظریات کی کھلی حمایت کرے لیکن سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں بھی میکیاولی کے حقیقت پسندانہ اور سفاکانہ طریقہ سیاست کو ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ سیاست کے کھلاڑی اپنی پسند کے مطابق وقت اور حالات کا انتخاب کرتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں اور اُن فیصلوں کو دلیل کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ سیاست دان بند گلی سے راستہ نکالنے کا ہُنر بھی جانتے ہیں اور پتھر میں رِستے پانی سے سوراخ کرنے کا فن بھی جانتے ہیں۔ لیکن اس سب کے لیے سیاست کا صحیح، بروقت اور بر محل استعمال بھی کوئی سیاست دانوں سے ہی سیکھے۔
محترمہ بےنظیر بھٹو اور نواز شریف نے جلاوطنی کی زندگی گزاری، عمران خان کے دور میں نواز شریف دوسری بار ڈیل کر کے بیرون ملک روانہ ہوئے۔ آصف علی زرداری نے 14 سال قید کاٹی۔ تاہم وہ جیل سے باہر آئے تو ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ صدر پاکستان بننے میں کامیاب ہوئے۔ اب یہ انکا نصیب ہے یا ان کی سیاست۔ لیکن سیاست نے نصیب کے دروازے ضرور کھولے ہیں۔
سینیئر اینکر پرسن کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری بھی اس نظریے کے قائل ہیں کہ سیاست مکالمے اور مسلسل انگیجمنٹ کا نام ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے آصف زرداری سے ایک انٹرویو میں سوال پوچھا کہ آپ تو ڈائیلاگ کے ماہر ہیں، مفاہمت کا فن جانتے ہیں پھر عمران خان سے بات کیوں نہیں کرتے؟ انکا جواب تھا کہ ’عمران خان سیاست کرے تو بات کریں گے، لیکن ایک کھلاڑی سے کیا بات ہو سکتی ہے؟‘ موجودہ صورت حال میں عمران خان جیل میں بند ہیں، وہ اب بھی اہک مناسب ڈیل کے انتظار میں ہیں اور اپنی شرائط پر یہ جنگ جیتنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ شرطیں رکھنے کی پوزیشن میں نہیں۔ عمران خان چونکہ تمام فیصلے خود کرنے کی خواہش رکھتے ہیں لہذا وہ اپنی جماعت میں کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ موصوف من چاہی ڈیل کے منتظر ہیں لیکن وقت کی چال کو سمجھنے سے یکسر انکاری۔ ان کی جماعت میں کوئی ایک شخص ایسا نہیں جس پر انہیں اعتبار ہو کہ وہ مطلوبہ ڈیل کے نتائج لے آئے گا۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ عمران خان اپنی پارٹی جیل سے چلانا چاہتے ہیں اور وہ بھی بذریعہ گالم گلوچ سوشل میڈیا بریگیڈ۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ عمران کی پارٹی ان سے زیادہ ان کی متحرک کردہ سوشل میڈیا ٹیم سے خوفزدہ ہے۔ دوسری جانب اقتدار کی اس لگائے عمران خان اب بھی ہاتھ میں آنے لوگوں کی لسٹ لیے بیٹھے ہیں جنہیں انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد نہیں چھوڑنا۔ تحریک انصاف اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے لیکن عمران خان اب بھی خوف کے ہتھیار سے ہی اپنی پارٹی کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔
کیا پراجیکٹ عمران کے خاتمے کے بعد حکومت بھی ختم ہو جائے گی ؟
دوسری جانب موجودہ نظام اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے۔ سیاست کی بساط تقریباً لپیٹی جا چکی ہے، انتظامی ارینجمنٹ کو ’وقت کا تقاضہ‘ قرار دیا جا چکا ہے۔ عالمی منظر نامے پر پاکستانی فوج اور اس کی قیادت کی مسلسل پذیرائی ہو رہی ہے جبکہ عالمی سیاست کے تقاضوں کے مطابق ’سیاسی اور انتظامی ایڈجسمنٹ‘ بھی ہو چکی ہے جس کو بظاہر کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ سینیئر صحافی کے بقول ریاستیں اپنا مفاد دیکھتی ہیں اور پاکستان اپنے مفاد کے مطابق خطے کا ایک اہم کھلاڑی بننے کی دوڑ میں شامل ہے۔ ایسے میں تاحال عمران خان ضرورت کے کسی خانے میں فٹ نہیں آتے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ خان صاحب اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود ضرورت کیوں نہیں بن سکے۔
سینیئر اینکر پرسن کا کہنا ہے کہ پارٹی کے ’سنجیدہ سیاست دان‘ متفکر ہیں کہ دھیرے دھیرے تحلیل ہوتی عمران کی جماعت کو بچانے کے لیے کچھ ’قربانیاں‘ تو دینا ہوں گی۔ سب سے پہلے تو گالم گلوچ بریگیڈ کو برطرف کیا جانا چاہیئے، پھر 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کی معافی مانگی جائے اور سیاست سے تشدد کا عنصر ختم کیا جائے۔ لیکن عمران خان کے لیے یہ شرائط تسلیم کروانا مشکل ہے۔ انکے لیے گالم گلوچ بریگیڈ سے جان چھڑانا بھی ممکن نہیں چونکہ اب وہ خود اس کے یرغمالی بن چکے ہیں۔
